صارف:محمد معروف صدیقی چکیاہ مانسہرہ/تختہ مشق

مولانا محمد معروف صدیقی گاؤں چکیاہ ضلع وتحصیل مانسہرہ ہزارہ پاکستان

علامہ ابن جوزی کے فقہی مباحث پر مختصر تحقیقی جائزہ

فہرست 1۔ابتدائی حالات 2۔نام ونسب 3۔ ولادت 4۔ کینت اور لقب 5۔ ابن جوزی کی وجہ تسمیہ 6۔ والد کے بعد پرورش ،ابتدائی تعلیم 7۔ آخری وقت کی خواہش 8۔ بہترین واعظ باکمال مصنف 9۔ آزمائش 10۔ وفات 11۔ امام جوزی کی چند مشہور کتب اور انکے نام 12۔ فقہ کی تعریف 13۔ فصل اول مبحث طہارت 14۔ فصل دوئم مبحث نماز 15۔ فصل سوئم مبحث ِ زکواۃ 16۔ فصل چہارم مبحث روزے کے اہم امور 17۔ فصل پہنجم روزے کی سنتیں 18۔ فصل ششم روزے کے آداب 19۔ فصل ہفتم مبحث حج 20۔ فصل نہم حج کے باطنی آداب ابتدائی حالات نام ونسب امام علامہ حافظ ،محدث،مفسر،جمال الدین ابوالالفرج ،عبدالرحمن بن علی ،محمد بن علی بن عبیداللہ بن عبداللہ بن حمادی بن احمد بن محمدبن جعفر الجوزی التیمی البکری البغدادی ابن عبداللہ بن القاسم ابن محمدبن عبداللہ بن الفقیہ عبدالرحمان بن القاسم بن محمد ابن خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنھم (1) ولادت آپ 508 ھ میں پیدا ہوئے ۔(2) کینت اور لقب کنیت ابوالفرج اور لقب ’ابن جوزی ہے۔ ابن جوزی کی وجہ تسمیہ

آپ کے اس مشہورِ زمانہ لقب کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے آباء میں آٹھویں پشت پر جعفر نامی شخص  بصرہ کے ایک گاؤں جوزہ میں رہتے تھے اسی وجہ سے  جوزی کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔۔

والد کے بعد پرورش ،ابتدائی تعلیم مستقبل میں دنیائے اِسلام پر آفتاب علم و دانش بن کر چمکنے والے اس نونہال کی پرورش والد کے بعد پھوپھی نے کی۔ جب آپ حد شعور میں داخل ہوئے تو پھوپھی آپ کو ابوالفضل ابن ناصر کی مسجد میں چھوڑ آئیں، جو رشتہ میں اُن کے ماموں تھے۔انھوں نے اس نہایت زیرک بچے کو اپنی تربیت میں لے کر پوری توجہ و انہماک سے علوم دینیہ پڑھانا شروع کیا۔ آپ نے تھوڑے سے عرصے میں حفظِ قرآن، علوم قراء ت اور تحصیل علم حدیث کے منازل طے کر کیے۔ خود فرماتے ہیں  : علم کی اہمیت و محبت‘ بچپن ہی سے میرے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو گئی تھی، اور میں حصولِ علم کے لیے کسی بڑی سے بڑی مہم کو سرکرنے میں لذت محسوس کیا کرتا تھا،چنانچہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مقام علم پر فائز کر دیا۔ یوں تو علامہ ابن جوزی جملہ علوم متداولہ میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے،تاہم جس علم میں انھیں اَبدی و آفاقی شہرت حاصل ہوئی وہ علم حدیث ہے۔ اِس علم میں آپ کی بہت سی تصانیف یادگار ہیں، حتیٰ کہ اپنے مقام علم و تجربہ پر اعتماد کی وجہ سے کہا کرتے تھے  : میرے زمانے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت شدہ کوئی بھی حدیث میرے سامنے بیان کی جائے تو میں بتا سکتاہوں کہ یہ صحت و ضعف کے کس درجے پر ہے۔ اور یہ دعویٰ اِفتخارِ غرور پر مبنی نہیں بلکہ اظہارِ حق و صداقت اور تحدیث نعمت کے طور پر ہے۔ ابن خلکان نے آپ کے حدیث مصطفیٰ سے بے پناہ عشق اور اس کے ساتھ وابستہ مچلتی ہوئی تمناؤں کے اِظہار کا تذکرہ ایسے وارفتہ انداز میں کیا ہے جسے سن کر دردِ عشق رکھنے والے دلوں میں محبت کے نغمے چھڑ جاتے ہیں۔

(3)

آخری وقت کی خواہش

علامہ ابن جوزی نے حالت نزع میں نحیف سی آواز میں پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ وہ سارے قلم اکٹھے کیے جائیں جن سے میں نے تمام عمر شفیع روزِ محشر محبوب داور علیہ السلام کی مبارک احادیث لکھی ہیں اور ان کے سروں پر لگی ہوئی روشنائی کھرچ لی جائے۔ جب آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی تواس سیاہی کا ڈھیر لگ گیا۔ پھر اس پروانہ شمع رسالت نے بحر محبت کی گہرائیوں میں ڈوب کر یہ وصیت کی کہ مرنے کے بعد میری نعش کو غسل دینے کے لیے تیار کردہ پانی میں یہ روشنائی ڈال دینا، شاید خدائے رحمن و رحیم اُس جسم کو نارِ جہنم سے نہ جلائے جس پر اُس کے محبوب کی حدیث کی روشنائی کے ذرے لگے ہوں۔ وصیت کے مطابق آپ کو غسل دیا گیا تو کافی مقدار میں روشنائی پھر بھی بچ رہی تھی۔اس وصیت کو دیکھ کر اس عاشق جگر سوختہ کے حسن طلب پر صد آفرین کہنا پڑتا ہے کہ کس اَدائے دِلربائی سے فضل باری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اللہ ہمیں بھی رخ والضحیٰ اور سرمہ مازاغ والے اپنے پیارے محبوب کی محبت کے یہی انداز عطا فرمائے۔

بہترین واعظ تحریر و کتابت میں یگانۂ روزگار تو تھے ہی میدانِ خطابت میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ آپ عہد نو خیزی ہی میں اچھے واعظ تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی صلاحیتوں میں روز افزوں نکھار آتا گیا۔آپ کی مجلس وعظ میں عوام الناس ہی نہیں خلیفہ وقت بھی جملہ وزرائے سلطنت کے ساتھ پتھر کی تصویر بنا دم بخود بیٹھا ہوتا تھا۔آپ نے حکمرانوں کی خوشنودی اور دربارِ شاہی میں رسائی کے لیے کبھی وعظ نہ کیا۔ خود کو ہمیشہ ظل سلطانی اور مداہنت لسانی سے دور رکھا۔ ساری عمر شمشیر وعظ اور نیزۂ قلم سے جہاد حق کیا ،آپ کے وعظ و بیان سے متاثر ہو کر ہزاروں گم کردۂ راہ فسق و فجور سے تائب ہو کر جادۂ مستقیم کے راہی بن گئے۔ اور کوئی دو لاکھ سے زائد کفار آپ کے دست حق پرست پر کلمہ حق پڑھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔علامہ ابن جوزی صرف علم حدیث اور فن وعظ ہی میں نہیں بلکہ تمام علوم میں آپ کو منفرد مقام حاصل تھا۔ باکمال مصنف عبد الرحمن ابن جوزی، دعوت و اصلاح کا ایک نمونہ ہیں، وہ اپنے زمانہ کے یکتائے روزگار مفسر، محدث، مورخ، ناقد، مصنف اور خطیب ہیں، اور ان میں سے ہر موضوع پر ان کی ضخیم تصنیفات اور علمی کارنامے ہیں۔

ان کی ایک ناقدانہ تصنیف تلبیس ابلیس ہے، جو ان کی نقاد طبیعت اور سلفی ذوق کا اصلی نمونہ ہے، اس کتاب میں انھوں نے اپنے زمانہ کی پوری مسلمان سوسائٹی کا جائزہ لیا ہے، اور مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر جماعت کو سنت و شریعت کے معیار سے دیکھا ہے، اور اس کی کمزوریوں، بے اعتدالیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی کی ہے، اور دکھلایا ہے کہ شیطان نے کس کس طرح سے اس امت کو دھوکا دیا ہے، اور کن کن راہوں سے اس کے عقائد، اعمال اور اخلاق میں رخنہ اندازی کی ہے، انہوں نے اس کتاب میں کسی طبقہ اور کسی شخص کی رعایت نہیں کی، اور کسی کو معاف نہیں کیا، اس میں علماء و محدثین فقہا و واعظین، ادباء شعراء، سلاطین و حکام، عباد و زہاد، صوفیہ، اور عوام کی علیٰحدہ علیٰحدہ کمزوریاں، غلط رسوم و عادات مغالطے اور بے اعتدالیاں بیان کی ہیں، یہ کتاب ان کی وسعتِ نظر، زندگی سے واقفیت، باریک بینی اور دقیقہ رسی کا کامیاب نمونہ ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شیطان کی نفسیات و سیاست کا گہرا مطالعہ کیا تھا، اور مذاہب کی تاریخ اور گمراہ فرقوں کے عقائد سے وہ بہت باخبر تھے۔

اس کتاب میں بڑی کارآمد چیزیں، بڑے بیش قیمت اقتباسات، اور بہت سی صحیح تنقیدیں ملتی ہیں، اور اکثر جگہ ماننا پڑتا ہے کہ ان کی گرفت صحیح اور ان کی تنقید حق بجانب ہےالغرض! علامہ ابن جوزی اسلام کے حقیقی شیدائی اور پیغمبراسلام کے سچے فدائی تھے۔آپ اظہارِ حق کے لیے’لاَخَوفٌ عَلَیہِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُونَ‘ کی عملی تصویر تھے۔ (4) آزمائش تذکرۃ الحفاظ میں آتا ہے کہ صاحب طبع شر خیز ابن عبدالوہاب نے اپنے مربی وزیر قصاب شیعی کو علامہ ابن جوزی کے خلاف بھڑکانا شروع کیا کہ کبھی ابن جوزی کی حرکات وسکنات کا بھی نوٹس لیا ہے وہ کٹر ناصبی اور اولادِ ابوبکر سے ہے، اور آپ کے منصب جلیل کے لیے کسی وقت بھی نقارۂ اجل بن سکتا ہے۔ بس اسی جُرم لاجَرم کی پاداش میں آپ کی ساری جائداد، گھربار اور اس کا مکمل اَثاثہ ضبط کر کیا گیا۔ اہل خانہ اور جگر کے ٹکڑے بچے بچیاں آنکھوں سے جدا کر کے دور دراز علاقوں میں پھینک دیے گئے اور آپ کو پابجولاں کشتی میں ڈال کر شہرواسط کے جیل خانہ کی طرف بھیج دیا گیا۔ جہاں آپ نے زنداں کی تنگ و تاریک کوٹھری میں پورے پانچ سال کمال صبرواستقلال سے یوں گزارے کہ خود کھانا تیار کرتے، اور اپنے ہاتھوں سے کپڑے دھلتے اور زبانِ شکر سے یہ کہتے جاتے  : اے پروردگار! تو نے مجھ سے ناتواں سے اپنے دین متین کی اتنی خدمت لی ہے۔ میں کس زبان سے تیرا شکر اَدا کروں !۔ قدرت نے آپ کو تصنیف کا ملکہ اور موقع بڑی فیاضی سے عطا کیا تھا یہاں تک کہ کثرتِ تصنیف میں آپ کا نام بطورِ ضرب المثل مشہور ہو گیا۔

وفات آپ آخر عمر میں پانچ یوم بیمار رہے اور شب جمعہ 13رمضان المبارک 597 ھ وفات پائی آپ کے جنازہ میں خلقتِ کثیر شامل ہوئی جن کا شمار مشکل تھا (5) امام جوزی کی چند مشہور کتب اور انکے نام 1۔ زادالمسیر 2۔ مناقب عمبر بن عبدالعزیز 3۔ تلقیع مفھوم الآثار 4۔ المقیم المقعد 5۔ صولۃ العقل علی الھوٰی 6۔ الناسخ والمنسوخ 7۔ تلبیس ابلیس 8۔ فنون الافنان 9۔ المنتظم فی تاریخ المملوک فی الامم 10۔ الذاھب السبوک فی سیرالملوک


11۔ مناقب عمر بن خطاب 12۔ مناقب امام احمد بن حنبل 13۔ صیدالخاطر 14۔ مثیر عزم الساکن 15۔ الضعفاء ولمتروکین 16۔ نزھۃ الاعینن 17۔ الموضوعات 18۔ منھاج القاصدین (6)


فقہ کی تعریف فقہ اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے، فقہ کا لغوی معنی ہے : ’’کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا۔‘‘قرآن حکیم میں درج ذیل مواقع پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے : 1. قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ. (8)

ترجمہ: وہ بولے، اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ. (9) ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ اسی لئے شرعی اصطلاح میں فقہ کا لفظ علمِ دین کا فہم حاصل کرنے کے لئے مخصوص ہے

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الفقه : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها. (10) ترجمہ: فقہ نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے۔


بالعموم فقہاء کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية. (فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۱/۱۳) ترجمہ: تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے۔ "شرعی احکام" سے مکلف کے افعال پر شریعت کی جانب سے جو حکم اور صفت مرتب ہوتی ہے وہ مراد ہے، جیسے کسی عمل کا فرض، واجب، مستحب یامباح یا اسی طرح حرام ومکروہ ہونا اور تفصیلی دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ کس دلیل شرعی پر مبنی ہے، کتاب اللہ پر، سنت رسول پر، اجماع پر، یا قیاس وغیرہ پر؛ اسی طرح حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل ہے۔ مندرجہ بالا تعریفات واضح کرتی ہیں کہ فقۂ اسلامی سے مراد ایسا علم و فہم ہے، جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کا علم ہو جائے اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو، جیسے نماز کی فرضیت کا علماَ اقِيْمُو الصَّلٰوۃ کے ذریعے حاصل ہوا، زکوٰۃ کی فرضیت کا علم اٰتُوا الزَّکٰوۃَ کے ذریعے حاصل ہوا۔ امام ابن جوزی اپنی کتاب منھاج القاصدین میں مختلف فقہی مباحث قائم کرتےہیں جن میں ایک مبحث طہارت کی ہے فصل اول مبحث طہارت معلوم ہونا چاہئے کہ طہارت کے چار مرتبے ہیں 1 پہلا ظاہری طہارت نجاست فضلات اور حدث سے پاک ہونا ۔2دوسرا اعضا کو گناہوں سے پاک صاف رکھنا ۔3 دل کو بُرے اخلاق اور ناپسندیدہ معچیزوں سے پاک رکھنا ۔4 اپنے باطن کو اللہ کے سوا ہر چیز سے پاک کر دینا یہی سب سے بڑا مقصد ہے جسکی بصیرت طاقتور ہوگی وہ اس مطلوب تک پرواز کرے گا لیکن جسکی بصیرت اندھی ہوگی وہ طہارت کے مراتب میں سے صرف پہلا مرتبہ ہی جان سکے گا تم اس کو دیکھو گے وہ اپنی عمرِعزیز کا بیشتر حصہ میں استنجا میں زور لگانے اور کپڑے دھونے میں ضائع کردے گا۔وسوسوں اورقلت علم کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ طہارت مطلوبہ صرف یہی ہے وہ متقدیمین کی عادات سے جاہل ہے کہ وہ دل کو پاک کرنے میں اپنی ساری زندگی ختم کردیتے تھے اور ظاہر کے معاملے میں سہل انگاری سے کام لیتے تھے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے ایک عیسائی عورت کے مٹکے سے وضو کیا وہ میل کچیل کی وجہ سے بسااوقات ہاتھ بھی صاف نہ کرتے زمیں پر نماز پڑھتے ننگے پاؤں چلتے اور استنجا ء میں صرف ڈھیلوں کے استعمال پر اکتفا کر لیتے لیکن اب ان لوگوں تک معاملہ آ پہنچا ہے جو حماقت کو نظافت کہتے ہیں تم دیکھو گے کہ ان کا زیادہ وقت ظاہری لیپ ٹاپ میں گزرتا ہے جبکہ ان کا باطن خراب ہے اس میں تکبر غرور جاہلیت اور رہا اور نفاق وغیرہ کی گندگیاں بھری ہوئی ہیں (11) فصل دوئم مبحث نماز نماز دین کا ستون ہے اور تمام طاعات سے افضل ہے نماز کے فضائل میں بہت سی آحادیث وارد ہوئی ہیں اور اسکے بہترین آداب میں سے خشوع ہے ۔حضرت عثمان بن عفان رضیی اللہ عنہ بنی کریم ﷺ سے روایت کتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فرض نماز کا وقت آجائے تو جو آدمی اچھا وضوء کرے اچھا خشوع اور رکوع کرے تو یہ نماز اسکے پہلے گناؤں کا کفارہ ہوجائے گی جب تک کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے آپ نے نبی ﷺ سے ایک اور حدیث بھی بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی دو رکعت نماز پڑھے اور اس میں خیالات اور وساوس نہ لائے تو اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔


تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت اور اس کے راز تین مکرو اوقات میں جو نماز پڑھنے کی ممانعت ہے اس پر علامہ ابن جوزی تین راز بتاتے ہیں 1 پہلا یہ کہ سورج کے پجاریوں کی مشابہت نہ ہو 2 دوسرا یہ کہ شیطان کے کنارہ سر کو سجدہ کرنے سے بچ جائے گا سور ج جب چڑھتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کا سینگ (کنارہ سر ) ہوتا ہے پھر جب سور ج بلند ہوتا ہے تووہ الگ ہوجاتا ہےپھر جب غروب ہونے کو ہوتا ہے تو پھر آملتا ہے اور غروب ہونے کے بعد جدا ہوجاتا ہے 3 تیسرا یہ کہ آخرت کی راہ پر چلنے والے عبادات پر ہمیشگی کرتے ہیں اور ایک ہی طریقے پر ہمیشگی کرنا انسان کو اُگتا دیتا ہے پھر جب رکاوٹ واقع ہوجائے تولذت زیادہ ہوجاتی ہے ۔ممنوع اوقات میں صرف نماز سے انسان کو روکا گیا ہے دوسری عبادات سے نہیں روکا گیا ۔مثلا قرآت ،تسبیح وغیرہ سے (12)

فصل سوئم مبحث ِ زکواۃ زکواۃ اسلام کے بنیادی ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے الل ہ تعالی نے اس کو نماز کے ساتھ ملایا ہے فرمایا اقیمصوالصلاۃ اتولزاکواۃ (13) نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو زکواۃ کی شرائظ میں سے یہ بھی ہے کہ منصوص علیہ چیز سے زکواۃ ادا کی جائے اور اسکی قیمت ادا نہ کی جائے ،صیح یہ ہی ہے اور جس نے قیمت ادا کرنے کا جاہز کہا ہے اس نے صرف حاجت پوری کرنے کو ملحوظ رکھا ہے اور حاجت کا پورا کرنا ہی مقصود نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ ہے کیوں کیہ شریعت کے واجبات تین قسم کے ہیں ۔1 ایک قسم تو وہ ہے جس میں صرف بندگی کا اظہار ہے جیسے جمعرات کو کنکریاں مارنا ہے اس سے شریعت کا مقصد صرف بندے کا امتحان ہے کہ وہ تعمیل کرتا ہے یا نہیں تاکہ بندے کی غلامی ایسے فعل سے ظاہر ہو جس کے معنی بھی وہ نہیں سمجھ سکتا ۔2دوسری قسم اس کے برعکس ہے اور وہ ایسے واجبات ہیں جن سے اظہار غلامی مقصود نہیں بلکہ اس کا مقصد خالص حقوق ہیں جیسے لوگوںکا قرض ادا کرنا اور چھینی ہوئی چیز کو واپس کرنا اسمیں نیت اور فعل کا اعتبار بھی نہیں ہے جسطرح بھی مستعق ہو اس کا حق پہنچ جائے مقصود حاصل ہوجائے گا ،یہ دونوں قسم کے واجبات غیر مرکب ہیں ۔ 3تیسری قسم مرکب واجبات کی ہے اور ان سے دونوں چیزیں مقصود ہوتی ہیں مقلف کا امتھان بھی اور بندوں کے حقوق بھی ان میں جمعرات کو کنکر مارنے کی عبودیت اور حققوق ادا کرنے کا حصہ دونوں جمع ہوجاتے ہیں ۔ (14) زکواۃ کے باطنی آداب آخرت کے طلب گار پر اسکی زکواۃ میں چند ایک ذمہ داریاں ہیں ۔ پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زکواۃ کے مقصد کو سمجھے اور یہ تین چیزیں ہیں پہلی اپنے محبوب چیز نکالنے سے اللہ کی محبت کے داعویدار کا امتحان ۔دوسری بخل سے پاک ہونا ۔تیسری مال کی نعمت کا شکر ۔دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ زکواۃ پوشیدہ طور پر نکالی جائے کیوں کہ اسمیں ریا کی آمیزش نہیں ہوتی ظاہر کرکے دینے میں لینے والے کی زلت کا اظہار بھی ہے پھر اگر اسے خوف ہوکہ زکواۃ نہ دینے کا اس پر الزام عائد ہوگا تو اعلانیہ طور پر کسی ایسے عاجت مند کو دیں جو جماعت کے سامنے لینے کو بُرا نہ سمجھتا ہو تیسرے یہ کہ احاسن جتلاکر اور تکلیف دیکر اس کو ضائع نہ کرے اور یہ اس طرح ہوتا ہے کہ انسان جب اپنے آپ کو زکواۃ لینے والے احسان کرنے والا اور انعام کرنے والا سمجھتا ہے تو بعض اوقات اس سے اس کا اظہار بھی ہوجاتا ہے اگر غور کریں تو اس سے معلوم ہوگا کہ عاجت مند خود اس پر احسان کرنے والا ہے کیوں کہ وہ اس سے اللہ کا وہ حق قبول کرتا ہے جو اس کے مال کو پاک کرتا ہے ساتھ ہی اس بات کو بھی مد نظر رکھے کہ اس کا زکواۃ ادا کرنا نعمت مال کا شکرانا ہے تو پھر اسکے اور زکواۃ لینے والے کے درمیان کوئی تعلق ہی نہیں رہتا اور یہ کسی بھی صورت درست نہیں کہ لینے والے کو اسکی غریبی کی وجہ سے حقیر سمجھے کیوں نہ مال سے فضیلت ہے اور نہ غریبی کا کوئی نقص ہے (15)

فصل چہارم مبحث روزے کے اہم امور معلوم ہونا چاہیے کہ روزے میں کچھ خصوصیتیں ہیں جو دوسری عبادات میں نہیں ہیں مثلا اس کا اللہ تعالی کی طرف منسوب ہونا جیسے اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکی جزا دوں گا یہ نسبت بہت بڑا شرف ہے کہ جیسا کہ بیت اللہ کا شرف کہ اسکو بھی اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا (وطھر بیتی ) اور میرے گھر کو پاک کر روزے کی فضیلت دو طرح سے ہے پہلی یہ ہے کہ یہ پوشیدہ اور باطن کا عمل ہے اسے مخلوق نہیں دیکھ سکتی اور یوں اس میں ریا نہیں دوسری اس لئے کہ یہ اللہ کے دشمن کو مغلوب کرتا ہے کیوں کی دشمن کا وسیلہ خواہشات ہیں اور خواہشات کھانے پینے سے قوت پکڑتی ہے اور جبتک خواہشات کی زمیں ہری بھری رہے گی شیطان اس چراہ گاہ میں آتے ہی رہیں گے ،البتہ خواہشات ختم ہوجانے سے ان پر راستے تنگ ہوجاتے ہیں ۔ روزے کے متعلق بہت احادیث ہیں جو اسکی فضیت پر دلالت کرتی ہیں ۔ (16)

فصل پہنجم روزے کی سنتیں سحری کا کھانا ۔ آخر وقت میں کھانا ۔روزہ جلدہ افطار کرنا ۔روزہ کھجور سے افطار کرنا ۔رمضان میں آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے سخاوت کرے نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے نیزقرآن کریم کی تلاوت کرنا ۔اعتکاف میں بیٹھنا اور خصوص آخری عشرے میں سنت ہے ۔(17) فصل ششم روزے کے آداب روزے کے تین درجے ہیں ۔عام روزہ ۔خاص روزہ ۔اورخاص الخاص روزہ ۔ عام روزہ یہ ہے کہ خود کو پیٹ بھرنے اور شہوت سے روکے ۔ خاص روزہ یہ کہ نظر زبان ہاتھ پاؤں کا ن اور تمام اعضاء کو گناہوں سے بچائے اور خاص الخاص روزہ یہ ہے کہ دل کو ردی خیلات اور خدا سے دور کرنے والے افکار سے پاک کرے اور اللہ کی یاد کے سوا ہر چیز سے رک جائے ۔ خاص روزے کے آداب میں یہ بھی ہے کہ نگاہ کو نیچے رکھے ،زبان کو تکلیف دینے والی بے فاہدہ باتوں سے روکے اور اپنے باقی اعضاء کو بھی برائیوں سے بچائے بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ بنی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے چھوٹ اور اس پر عمل کو نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کے کھانے اور پینا چھوڑنے کی کائی ضرورت نہیں ۔روزے کے آداب میں ہے کہ رات کو پیٹ بھر کر نہ کھائے بلکہ بقدر کفایت کھائے کیوں کہ پیٹ سے زیادہ بُرا کوکوئی برتن ابن آدم نہیں بھرتا اور جب پہلی رات میں سیر ہوکر کھائے گا تو باقی رات میں اپنے نفس سے کوئی فاہدہ نہیں اٹھا سکے گا اس طرح اگر سیری پیٹ بھر کر کھائے گا تو ظہر تک اپنے نفس سے کوئی فاہدہ نہیں اٹھا سکے گا (18)

فصل ہفتم مبحث حج جو آدمی حج کا اارادہ کرے اسے چاہیے کہ کہ پہلے توبہ کرے اور جن پر ظلم کیا ان کا حق دے قرضہ ادا کرے اور جنکے اخراجات کا زمہ دار ہے واپسی تک انکے خرچے کا انتظام کرے نیز لوگوں کی امانتیں واپس کرے علاوہ ازیں اپنے ساتھ حلال مال اتنا لے جائے جس سے بغیر کسی کنجوسی اور تکلیف کے آجا سکے نہ صرف سفر کے دوران میں کھانے پینے کا اچھا انتظام کرسکے بلکہ فقیروں کو بھی دینے کے قابل ہو مناسب مقدار میں روپے کے علاوہ اپنے ساتھ بدنی آرائش کی چیزیں بھی لے جائے مثلا مسواک کنگی شیشہ سرمہ دانی وغیرہ ۔حج کیلئے جانے لگے تو گھر سے نکلنے سے پہلے کچھ صدقہ کرے اور جب اونٹ یا کوئی سومواری کرائے پر لے تو اس سواری والے کو تمام سامان چاہے تھوڑا ہو زایادہ ضرور بتا دے کہ یہ چیز اس سواری پر رکھے گا۔(19)

فصل نہم حج کے باطنی آداب 
معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تک پہپنے کی صرف یہی صورت ہے کہ آدمی اسکی عبادت کیلئے دوسری چیزوں سے الگ ہوجائے عیسائی رائب اللہ تعالیٰ سے انس حاصل کرنے لیے پہاڑوں میں گوشہ نشین ہوجاتے ہیں ،امت مسلمہ کو ایسا کرنے سے منع کیاگیا ہے لیکن حج کو اللہ کے لئے وقف ہوجانے کا ذریعہ بنا دیا گیا چناچہ حج کے آداب میں سے یہ بھی کہ حج میں تجارت وغیرہ سے الگ ہوکر اللہ کی اطاعت کے لئے مجتمع رہے اور غبار آلود  اور پرشان حال ہوکر اسے پکارے اور زیب زینت کا زیادہ خیال نہ کرے 

حضرت جابر رضی اللہ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حاجیوں کے ساتھ فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ میرے بندوں کو دیکھو میرے پاس ہر راستے سے غبار آلود اور پرشان حال آئے ہیں میں تم کر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو بخش دیا اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کو شرف اور عزمت عطاء فرمائی ہے اور اپنے بندوں کے لئے اسے مقصد مقرر کیا ہے اور اس کے ماحول کو معض اسکی عزمت شان اور بزرگی کیلئے حرم بنایا ہے اور عرفات اس کے لئے مقدس میدان مقرر کیا ہے ۔(20)

حوالاجات

1 امام ابن جوزی محدث اعظم ، بحرالدموع: مولف ،مولانا مدادللہ انو،ط،2001،مکتبہ ،فرید بک دھلی ر ص:13 ۔

2    امام ابن جوزی محدث اعظم ، بحرالدموع: مولف  ،مولانا مدادللہ انور  ،ط،2001،مکتبہ ،فرید بک دھلی ص:13 ۔ 
 3    امام ابن جوزی محدث اعظم ، بحرالدموع: مولف  ،مولانا مدادللہ انور،ط،2001،مکتبہ ،فرید بک دھلی   ص:14 ۔ 

4 امام ابن جوزی محدث اعظم ، بحرالدموع: مولف ،مولانا مدادللہ انور ،ط،2001،مکتبہ ،فرید بک دھلی ، ص:15

5 امام ابن جوزی محدث اعظم ، بحرالدموع: مولف ،مولانا مدادللہ انو،ط،2001،مکتبہ ،فرید بک دھلی ر، ص:15 ۔

6 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،ص: 16۔)

7   امام  عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین  ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985  ،ص،17) 

8 القرآن سورۃ :هود، 91

9 بخاری، الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اﷲ به خيرا يفقهه فی الدين، ج،1 :ص 39

10  الزرکشی، المنثور، 1 :ص 68

11 (امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب ،طہارت ،ص: 49۔)

12 (امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب ،صلواۃ ،ص: 61۔)

13 القرآن سورۃ بقرۃ : 43

14 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب زکواۃ ،ص: 65۔)

15 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب زکواۃ ،ص: 66۔)

16 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب صوم ،ص: 75۔)

17 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب ،صوم ،ص: 77۔)

18 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب ،صوم ،ص:78۔

19 امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب ،حج ،ص: 83۔ 20 (امام عبدالرحمان ابن جوزی ،منھاج القاصدین ج 1،مکتبہ ادارہ معارف اسلامی لاہور،ط،1985 ،باب ،حج ،ص: 88۔