منصف ہاشمی
شاعر
پیدائش
ترمیممنصف علی ہاشمی (قلمی نام منصف ہاشمی) 3 اپریل 1969ء کو پیدا ہوئے،
تصانیف
ترمیم- مٹھی میں ستارے لئے
- عشق
- ایلاف وفا
ادبی سفر
ترمیمادبی زندگی کا آغاز کالم نگاری سے ہوا ، تنقیدی مضامین بھی لکھے لیکن نثری نظم میں نمایاں خدمات انجام دیں، یہی وجہ شناخت بنی، نثری نظم میں "سہ نثری" اور "رچنا" صنف متعارف کرائیں۔
"منصف ہاشمی بحیثیت شاعر" ایم فل کا تھیسس غزالہ صفدر نے پروفیسر ماجد مشتاق کی زیر نگرانی جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی طرف سے مکمل کیا۔
پاکستان رائٹر گلڈز پنجاب کے سرگرم رکن رہے
نمونہ کلام
ترمیمنثری نظم.(سہ نثری)
وہ عجیب پاگل لڑکی تھی.
جو پھولوں کی طرح کتابوں میں رکھتی تھی.
میری نثری نظموں کے تراشے.
نثری نظم۔
تتلیوں کے صحیفے میں۔۔۔!
فرخندہ زمانوں کی داستانیں تھیں۔
نجد سے شعب ابو طالب کی طرف آتے ہوئے !
تیرے دل کی مسجدوں میں۔۔۔!
عشق شناس اذانیں گونج رہی تھیں۔
باوفا خواب وضو کررہے تھے۔
شہ رگ کی پہچان میں تبسم سمونے والے۔۔۔!
رشتۂ عطش کے منقلب راز کھولنے والے۔۔۔!
امہات دشت کے دلوں میں استعارے دھڑک رہے تھے۔
میں باب فسوں سے شہر خمار تک کا صحیفہ پڑھ رہا تھا۔
غار قیس میں بیٹھے ہوئے۔۔۔!
سرخ عمامے میں تفسیرِ جنوں کررہا تھا۔۔۔!
دشت لبنی میں محو سفر قافلے دیکھ رہا تھا
اہل ادب کی نظر میں
ترمیممنصف ہاشمی کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر طارق ہاشمی کی رائے ۔۔۔۔!
1980 کی دہائی کے فکری پیرایوں اور تخلیقی تسلسل کے تناظر میں ابھرنے والے شعراء میں منصف ہاشمی نے اپنی شناخت کی کامیاب سعی کی ہے۔۔ ان کی شاعری متفرق ، متضاد اور متنوع کیفیات پر مشتمل اور اپنے حلقۂ قارئین پر گہرا تاثر مرتب کرتی ہے۔ گھنٹہ گھر اور آٹھ بازاروں کے رنگوں سے مزین اس تخلیق کار سے وابستگی کا بنیادی حوالہ شعر و ادب سے والہانہ شیفتگی ہے۔ وہ بہ یک وقت کئی ایک سماجی جہتوں کے حامل ہیں لیکن تخلیقی سطح پر ان کی روحانی اور نفسیاتی پہچان ان کا تخلیقی تسلسل ہے۔ منصف ہاشمی کی نظم بوقلمونی کا باعث وہ رنگا رنگ اور متنوع کیفیات ہیں جنہوں نے نہ صرف ایک نئی تخلیقی روایت کی آبیاری کا کام کیا ہے بلکہ ایک نئی لسانی تہذیب کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ قدیم مذہبی روایات سے لے کر جدید ارضی حقائق تک منفرد بیانیہ ان کی نظموں کو نیا آہنگ عطا کرتا ہے ۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں جن اچھوتی تلمیحات کا استعمال کیا ہے وہ حرف و معنی کے لیے در وا کرتے ہوئے نیااسلوب تشکیل دیتی ہیں۔ سر،خ خیموں سبز رنگ بھرتے ہوئے ۔۔۔! مردہ کہانی۔۔۔ حنوط افسانوں کی رگوں میں زندگی بھرتے ہوئے ! ماریہ نصرانی غدار اور زلیخا آذربائیجانی کی شکلیں دکھا کر ! حنظلہ اور جمیلہ کی آنکھوں سے بہتے چشموں میں ! سنگلاخ چٹانوں میں ۔۔۔۔۔۔بنجر بیابانوں میں ! انائے بنتِ دانیال اورامیل کی زندہ کہانی سناتی ہیں منصف ہاشمی کی نظم کے کرافٹ میں ارتکاز کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔انہوں نے دریافت، بازیافت اور طویل فکری ساخت کا کامیاب تجربہ اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے جہاں نادر اور اچھوتی تلمیحات سے کام لیا ہے وہیں قدرتی مناظر اور حسن فطرت سے کام لیتے ہوئے غیر معمولی وجدان کے توسط سے منفرد تصویریں واضح کی ہیں۔ دیواروں سے اترتی گلابی بہاریں اہل حجاب کی قبلہ داری کے طاق میں ڈوب رہی تھیں مقامات کاف کے تسطیری وجدان کشف ابجد کے حرفی قفل توڑ کر جمالی ساحلوں کی طرف چلے گئے تھے
منصف ہاشمی کی نظموں کا ایک اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے مختلف اور متنوع اقسام کے رنگوں کا ذکرنہایت تواتر کے ساتھ کیا ہے۔ یہ شعری اسلوب تخلیق کار کے ذہن کی زرخیزی کا توانا اظہار بھی ہے کہ وہ کس طرح چیزوں کے مابین تلاش کرتا ہے۔ احمریں ساحلوں، سبز سرخ چوڑیاں سرمئی قوس قزح ماہتابی فرغلوں سرخ سیاہ پھلوں گلابی بہاروں اورلوح شفق کے احساس رنگوں سے انہوں نے اپنی نظموں کا خمیر اٹھایا ہے۔منصف ہاشمی کی نظم میں جہاں تہذیبی شعائر کا تذکرہ ملتا ہے وہاں ایسی نظموں کا ایک بڑا حوالہ موجود ہے جس میں گنگا جمنی تہذیب کا ذکر ملتا ہے۔ مندروں میں دیے جلانا، قلندروں کے حجروں سے نکلتی روشنیوں ،فقیروں کے پیالوں، مسجدوں میں اذانوں، مندروں میں مورتیوں کے تراشنے جیسے مشترکہ تہذیبی حوالوں کا بارہا تذکرہ کیا ۔ منصف ہاشمی بلاشبہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں جو تاریخ ، تہذیب، فلسفہ اور فکر و فن پر گہری نظر کا ثبوت دیتے ہیں۔ مشکل اور پیچیدہ علامات کو لے کر وہ تخلیقی عمل میں متفرق نئے رنگ بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے خاص ماحول اور خاص بیانیے سے کام لیتے ہوئے اپنا ڈکشن خود وضع کیا ہے۔ان کی نظم تحیر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی شعبۂ اردو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد
نثری نظم۔
سبز رنگ۔۔۔!
سبز شاخیں کٹ رہی ہیں۔
باب سبز کے فقیر قتل ہورہے ہیں۔
تم آہوان دشت میں ۔۔۔ !
گل بنفشا، گل داؤدی اور گل مریم کے ساتھ۔۔۔!
آنسوؤں سے عمامہ دھو رہے ہو۔
سبز پتوں، سرخ پھولوں کی قسم۔۔۔!
میں گمنام جزیروں سے ابابیلوں کو بلانے والا ہوں۔
سبز شہر سے خطیب بہار بلانے والا ہوں۔
منصف ہاشمی کی نثری نظمیں
نثر اورنظم میں کیا فر ق ہے؟نور الغات میں "نثر" کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ "وہ عبارت جو نظم نہ ہو"۔ یعنی لفظ "نثر" کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے، اسے "نظم" کے منفیانہ یا تنسیخی معانی سے ہی پہچانا جائے ۔۔۔نثر کے لغوی معنی ہیں۔:"پراگندہ" ، "بکھرا ہوا" ۔ اس کی صفات میں "خشک" ، "غیر شاعرانہ" وغیرہ الفاظ تقریباً ہر لغت میں پائے جاتے ہیں۔ نثر کو نظم سے قریب تر لانے کے لیے جو حربے استعمال کئے گئے ان میں جملوں کے آخری الفاظ کا مقفےٰ ہونا شرط اول تھی۔گویا نثر پر نظم کو مسلط کرنا شر ط اول تھی، نہ کہ نظم پر نثر کی فوقیت کو جتانا۔ در حقیقت نثر نگاری دوسرے درجے کی ادبی کاوش تھی جب کہ نظم گوئی سر فہرست تھی۔بیسویں صدی کے آخری تیس چالیس برسوں میں "نثری نظم" کو ادبی جریدوں میں جگہ ملنی شروع ہوئی، لیکن اردو نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ "غزل گو " یا "نظم گو " کی جگہ" غزل نویس "یا "نظم نویس" بطور اصطلاح تسلیم کیا جائے ۔ "سخن" کا مطلب "بات" نہیں بلکہ "موزوں بات" تسلیم کیا گیا۔اس کے لوازمات میں آہنگ، لہجہ، (صوت)، زحافات کو صف اول میں جگہ دی گئی۔
منصف ہاشمی کو فیس بک اور رسائل کی وساطت سے میں گذشتہ دو دہائیوں سے پڑھ رہا ہوں۔ ارکان اورزحافات سے معرا ہونے کے باوجود ان کا آہنگ ایسے بیانیہ پر مبنی ہے جس میں نظم کی خصوصیات موجود ہیں۔ ترصیع، تجنیس، سجع ، آہنگ، اور سب سے بڑھ کر امیجری شعریات کے تقاظوں کو پورا کرتی ہیں۔ مترنم نہ ہونے کے باوجود ان کا بیانیہ شاعرانہ غنائت کا حامل ہے۔ان کی نظمیں مضمون نگاری کے حوالے سے خیال بندی اور معاملہ بندی کی شرائط پر بھی پورا اترتی ہیں۔ موضوعات کے حوالے سے ان کی نظموں میں مجھے شروع جوانی کی ملائمت اور عمر کی پختگی سے حاصل شدہ زاویہ دار خمیدگی کا ایک انوکھا امتزاج نظر آیا جو بہت کم شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ ان میں ایک طرف توجہاں( شخصی کم اور غیر شخصی زیادہ) تجربات اور انسانی رشتوں کے سلسلۂ امکانات کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے ایک معصوم زاویۂ نگاہ موجود ہے، وہاں کچھ ایسے عینی خصائص بھی ہیں جو جذبات سے کچھ آگے بڑھ کر ان کو دانش و فہم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی تخلیق ( اور خصوصی طور پر نظم ) موضوع اور مضمون کے انتخاب کے علاوہ شاعر کی زباندانی یا لسانی اہلیت کی ایک معتبر گواہ ہوتی ہ۔ ےزبان خود اپنی طرف قاری کی توجہ مبذول کروا لیتی ہے۔ یعنی جس موثر طریق ِ کار سے زبان کا رکھ رکھائو خارج کے تناظر میں نہیں، بلکہ خود اپنے آپ میں قاری کے دھیان کو سمو کر ، اسے آگے پڑھنے پر مجبور کر دیتاہے، وہ طریق کا منصف ہاشمی بآسانی بروئے کار لاتے ہیں اور اس طرح قاری کو اپنی تحریر کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔
وفات
ترمیم24 جنوری 2022ء کو فیصل آباد میں وفات پائی، ہمت پورے والا قبرستان جڑانوالہ روڈ فیصل آباد میں تدفین ہوئی۔