چنجری راجپوت

چنجری قوم دراصل جنجوعہ راجپوت کی ایک شاخ ہے۔ چنجری قوم کا شجرہ نسب دراصل جنجوعہ راجپوت سے نکلتا ہوا سیدھا راجا مل سے جاملتا ہے۔ جبکہ چنجری قبیلے یا قوم جنجوعہ راجپوت کی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنجریوں کی پہچان جنجوعہ راجپوت سے ہوتی ہے۔ جبکہ چنجری لقب اس قوم کو چنجری نامی پرندے سے پڑا تھا جسکو انگلش میں فروکولینس کہتے ہیں۔ یہ لوگ و قوم یا قبیلہ اس چنجری پرندے کا شکار کرکے اپنی معشیت بہتر بناتے تھے۔ چنجری پرندے کا زیادہ استعمال کرنے سے ان کا بھی لقب چنجری راجپوت پڑا جو دراصل جنجوعہ راجپوت کی ایک شاخ و نسب سے ہیں۔

جنجوعہ راجپوت راجا مل کی نسل سے ہیں جبکہ چنجری راجپوت کی لڑی / نسب سیدھی جنجوعہ شاخ نکلتی ہے۔ چنجری راجپوت دراصل جنجوعہ راجپوت کی شاخ سے ہونے کی وجہ سے ان کی بھی پہچان جنجوعہ راجپوت سے ہوتی ہے۔ مفکرین / ریسرچر کے مطابق چنجری کا لقب انہیں ایک پرندے سے لگا ہے۔ جس کو انگلش میں Frocolians کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ پرندہ پہاڑوں اور جنگلوں میں پایا جاتا ہے آبادی سے دور رہتا ہے۔ جب جنجوعہ راجپوت کی ایک نسل پہاڑوں و دیگر شہروں کی طرف آباد ہوٸی تو اس نسل نے اس پرندے کا شکار کرنا شروع کردیا۔ اس پرندے کا مزاج انتہاٸی سخت اور غصیلا اور لہجہ ترچھا سیدھا کان چیر کر رکھ دے۔ یہ چنجری پرندہ باقی پرندوں سے خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اس کی آواز بھی کافی سریلی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پرندے کی دو طرع کی آواز ہوتی ہے۔ ایک سخت لہجہ دوسرا اتنا میٹھا کہ سننے کو جی چاہے۔ اس چنجری پرندے کی آواز تبدیل اس وقت ہوتی ہے جب یہ حملہ آوار ہوکر دیگر پرندوں کوشکار کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چنجری قوم نے اس فروکولنس پرندے کو اپنے خوشیوں کے دن اس پرندے کو کھانا پسند کرتے تھے۔ گھروں میں مہمانوں یا عید کا دن ہوتا یہ لوگ اس پرندے کو اپن پسندیہ ڈش کے طور پہ استعمال کرتے تھے۔ فروکولینس پرندہ اس چنجری نسل کی رگوں میں ایسے بس چکا تھا کہ یہ پرندہ بعد از زمانہ ان لوگوں کی آنا بن گیا اور انہوں نے اس پرندے کو اپنے جزبات و خیالات سے تشبی دیتے ہوٸے اپنا راجہ یا سردار یا قومی یا نسلی پرندہ مان لیا تھا۔ آج کل بھی بعد علاقوں میں اس پرندے کا فوٹو یا اس کا نام بطور فخر قوم یہ لوگ استعمال کرتے ہیں مزید یہ کہ اس پرندے کو بہت زیادہ گھریلو استعمال کی وجہ سے ان کی نسل بھی اس پرندے کی شوقین بنی۔ آنے والی نسلیں اس پرندے چنجری کا شکار شوق سے کرتے اور انہوں نے اس زمانہ میں اپنا قومی پرندہ سمجھتے ہوٸے اس پرندے کی چمڑی اور اس کے پر اور سر چونچ کو اپنی پگوں پھگڑیوں اور ٹوپیوں اور چادروں پہ سجالیتے تھے۔ اس طرع جنجوعہ نسل کی اس قوم و قبیلہ کا لقب اس پرندے کے نام سے چنجری پڑا۔ یہ شجرہ آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہوا۔ اسی طرع یہ جنجوعہ قوم کا قبیلہ کشمیر و خبیر پختون خواہ سے ہوتا ہوا راولپنڈی و ابیٹ آباد ۔ مانسہرہ سے وادی نیلم تک جاپہنچا ۔ ان کا نام چنجری راجپوت پڑا ۔ جبکہ ان کے کاغذات سرکاری میں بھی جنجوعہ راجپوت سے شجرہ درج ہے ۔ چنجری لفظ ہندکو زبان میں استعمال ہوا جب کہ اس کا تعلق فارسی زبان اور پشتو زبان سے بھی ہے ۔جبکہ چنجری پرندے کو انگلش میں فروکولینس کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

جبکہ اس جنجوعہ راجپوت کا کچھ قبیلے سرحدی صوبے (KPK) میں بھی آباد ہوٸے جن کو چنجڑی قوم سے جانا جاتا ہے اور یہ چنجڑی قوم راجہ لکھوانے کے ساتھ ساتھ خان کا تخلص بھی استعمال کرتے ہیں۔

چنجری قوم آزاد کشمیر میں دوتہائی اکثریت سے آباد ہے ۔ جو اس خطہ میں تقریبا 1470 میں آباد ہوٸی تھی۔ چنجری راجپوت وادی نیلم ، جہلم اور مانسہرہ ، KPK ۔ پنجاب و سندھ اور گوجروالا ۔ لاھور ۔ راولپنڈی میرپور سرگودھا۔ سیالکوٹ ٰ کراچی وغیرہ جیسے علاقوں میں آباد ہوٸے تھے۔ موجودہ دور کے اعداد و شمار کے مطابق ان چنجری راجپوت کی نسل اب اکثریتی ہے۔جبکہ فی الوقت چنجری راجپوت کے نسب سے ملعق ہونے کی وجہ سے دراصل ان کی پہچان بھی جنجوعہ راجپوت سے ہوتی ہے جبکہ جنجوعہ راجپوت راجہ مل خان کے شجرہ نسب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کی تاریخ اس فورکولینس پرندے سے پڑھی۔ جس کو ہندی/سنسکرت زبان میں چنجری کہتے ہیں

چنجری راجپوت یا جنجوعہ راجپوت کا مزاج و لہجہ اور دوستانہ راویہ و نفرت وغیرہ کا بھی اعادہ کیا گیا جس سے یہ قبیلہ دیگر قوم و نسل کے لوگوں سے علحدہ ہی کچھ احساسات و جزبات و لہجہ رکھتا ہے۔ ریسرچ رفاقت رسول۔۔۔۔۔۔۔ [1]

یہ قوم یا قبیلہ بہت زیادہ غصہ یا جھگڑالو ہوتی ہے لڑاٸی جھگڑے دوسرے کے سیدھا گلے پڑھ جانا یہ ان کی فطرت میں موجود ہوتا ہے۔ اپنی کہی ہوٸی بات ڈٹ جانا اور اپنی من مرضی کرنا دیگر شامل ہے۔ نفرت و محبت ان کی فطرت پہ منحصر کرتا ہے کہ یہ کب دوستی میں بدل جاٸے کب دشمنی میں بدل جاٸے۔ دیگر یہ کہ یہ لوگ دوستانہ تعلقات میں جان دے دیتے ہیں۔ مگر عام معمولی باتوں سے تعلق کھبی نہیں توڑتے ہیں۔ انکی فطرت بس دو ہی چیزیں مانتی ہے ایک یا تو دوستی پکی پکی یا پھر پکی دشمنی۔ مگر مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ انہتاٸی رحم دلی اور خاص کر حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بچے عمومی طور پہ سخت لہجہ و غصیلے ہوتے ہیں یہ سخت مزاجی ان کے بچوں کو وارثتی طور پہ منتقل ہوجاتی ہے۔ جبکہ یہ قوم آخری عمر میں بھی جاکر ایسے ہی لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ان کا مزاج عمر بھر تبدیل نہیں ہوتا ہے۔