تمام تعریف صرف ایک ذات اللہ کی جس کی دی ہو ئی قوت سے ہر کام پایا یہ تکمیل کو پہنچتا ہے اور فقط اسی کا نام تھا او ر باقی رہنا ہے۔ کوئی بھی عمل یا کام اتفاق سے یا اچانک نہیں ہوتا بلکہ ہر حرکت کی باز گشت صرف ایک جگہ سے آتی ہے۔ تمام کمال جو اس قلم میں ہے ا سی کی مہربانی سے ہے۔

  • نام ۔ محمد الطاف گوہر

Work ترمیم

ترمیم

ہر دور میں مختلف افراد اپنی بساط کے مطابق ’میں‘(SELF )کی تلاش میں نکلے، کسی نے کہا ’کی جاناں میں کون؟‘اور کوئی ’ان الحق‘ کا نعرہ لگا کر چلا گیا کسی نے خودی کا تصور دیا۔ غرض ہر نظر نے اپنے اپنے زاوئیے سے دیکھا اور جو دیکھا خوب دیکھا ۔ ہر شے کو دیکھنے کے360 زاوئیے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے۔ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جو حقیقت شناسا ہوتی ہے۔ اگر ہائیڈروجن گیس کے دو حصے اور آکسیجن کا ایک حصہ ملایا جائے تو نتیجتاً پانی بنے گا مگر ان دونوں گیسوں کو اور کسی بھی ترکیب سے ملایا جائے پانی نہیں بنے گا چاہیں کروڑوں طریقے آزمائے جائیں۔ یعنی ایک ہی زاویہ یا ترکیب کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے وگرنہ دوسری ساری تراکیب و طریقے (زاوئیے، نقطہ نظر)سوائے گمراہی اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں۔ تخلیق کا خاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جو ایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں)ایک خاص نسبت (ترکیب)پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ جیسے قدرت کے رازوں میں سے ایک راز واضح کرتا چلوں کہ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H20) کی نسبت کے ساتھ ملتی ہیں تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جوکہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔ اس دنیا کو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خاردار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’میں ڈوبا تو جگ ڈوبا‘ یعنی ایک دفعہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے شور مچایا کہ مجھے بچاﺅ دونہ تمام یہ دنیا (جگ) ڈوب جائے گی۔ لوگوں نے اسے بچا کر کنارے پر پہنچایا اور پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک کہ تم ڈوب رہے تھے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں ڈوبا تو جگ ڈوبا؟ وہ شخص بولا بھئی اگر میں ڈوب کر مر جاتا تو میرے لئے تم سب مر گئے تھے نا یعنی میرے لئے تو دنیا ختم ہوگئی تھی “ اس مثل میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے۔ اب اندر کی دنیا بھی کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے جسے ہم بچپن سے لے کر مرنے تک تعمیر کرتے ہیں اور اس کی منزلوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ہم میں سے کچھ لوگ تو اس عمارت کی بیسمنٹ میں رہتے ہیں کچھ گراؤنڈ فلور پر اور کچھ سب سے اوپر والی منزل پر۔ آپ اندازہ کریں کہ جو شخص اس کئی منزلہ عمارت کی بیسمنٹ میں رہتا ہو جہاں حشرات الارض (کیڑے مکوڑے) اور بدبودار ماحول ہے اسکو کس طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اس شخص کی زندگی کے بارے میں جو سب سے اوپر والی منزل میں رہتا اور قدرت کے نظارے ، صبح سورج طلوع ہونے کا منظر ، بادلوں کا آنا جانا ، غروب ہونا کا منظر وغیرہ دیکھتا ہے۔ غرض اپنے ہی اندر کوئی عذاب میں مبتلا ہے اور کوئی سکون کی لذت سے مالامال ہے۔ یعنی یہ کئی منزلہ عمارت ہمارے اپنے اندر (ذہن ) میں بنے ہوئے ماحول (Mind Set ) ہیں جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کبھی تکلیف نہیں کرتے کہ اسکے بارے میں معلوم کریں؟ بچن سے اب تک جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہیں، سنتے آئے میں سب کا سب ہمارے ذہن کا حصہ بن چکا ہے مگر اس سب کو ہم باہر سے اندر غیر جانب دار ہو کر ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ اپنے عقیدہ (Belief System)کے تحت مرضی کی اشیاء اپنے ذہن کا حصہ بناتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شاندار طریقے سے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم تہہ در تہہ اس کو ذخیرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ہماری زندگی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ خودی (SELF ) ہر فرد کے اندر سے اس دنیا ( زندگی )کی ہر چیز کا مشاہدہ کررہی ہے؟ اس دنیا کی ہر چیز تبدیل ہوتی ہے ہمارے نظریات تبدیل ہوتے ہیں، ہماری ذات، اردگرد کا ماحول ملک خاندان غرض ہر شے تبدیل ہوتی ہے مگر یہ مشاہدہ کرنے والی اکائی (میں - SELF ) کبھی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ شہادت دیتی ہے کہ اب بچپن ہے اور یہ جوانی ہے اور یہ بڑھاپا ہے ہر چیز پہلے اسطرح تھی اور اب اس طرح ہو گئی غرض ہمارے اندر سے اس دنیا کی ہر تبدیلی پہ یہ اکائی (میں Self) شہادت دینے والی بن جاتی ہے۔ مراقبہ اپنے آپ کو جاننے کا ایک عمل ہے کہ دراصل ہم میں کون ہیں؟ اور ہمارے اندر کبھی نہ تبدیل ہونے والی اس (Self )سے رابطہ کیسے کیا جائے جبکہ اسکے ثمرات سے استفادہ حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ (جاری)

لمحوں میں زندگی ترمیم

زندگی کے لمحے نہ گنو بلکہ لمحوں میں زندگی تلاش کرو کیونکہ یہ تو وہ شمع ہے جو اِک بار جل جائے تو بجھتی نہیں بلکہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ دیے سے دیا جلائے بٹتی (Travel) چلی جاتی ہے۔ یہ روشن چراغ اگرچہ تمام دنیا کا اندھیرا دور نہیں کر سکتے مگر اپنے اِرد گرد اندھیرا بھی نہیں ہونے دیتے۔ خودی (میں، Self) کا دیا تو عاجزی کی لو سے روشن ہوتا ہے۔ بلندوبالا پہاڑیوں کی کوکھ سے جنم لینے والے ہزاروں، لاکھوں چشمے، ندیاں، نالے اور دریا آخر سمندر کی گود میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں کیونکہ سمندر انکے مقابلے میں ہمیشہ پستی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں بلکہ ہم تو کامیابی اور سکون کے وہ سفینے ہیں جو عافیت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم موت کے منہ میں ایک اور نوالہ نہیں ہیں بلکہ ہم تو وہ جلتی شمعیں ہیں جو دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشنی بانٹتی چلی جا رہی ہیں اور جہالت کی تاریکی کے سامنے ہم تو وہ چراغ ہیں جو دُنیا کو سورج کی طرح روشن نہ کر سکے مگر اپنے ارد گرد کو تو روشن رکھتے ہیں اور ہم تو وہ ٹھنڈی چھاﺅں ہیں جو تپتی دھوپ میں سایہ بنتے ہیں۔ ہم وہ جوہڑ نہیں ہیں جو زندگی کو فنا کا درس دیتے ہیں اور بقا کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ ہم تو علم و فن کے وہ چشمے ہیں جو زندگی کو بقاء کا درس دیتے ہیں جہاں سے ہر کوئی سیراب ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ اِسی وقت ممکن ہے کہ جب ہمارے اندر خودی (میں، Self) کا دیا جلتا ہے اور ہمارا رابطہ ازل سے جڑ جاتا ہے۔ اس کائنات میں کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی واقعہ حادثہ ہوتا ہے بلکہ ہر شے خاص مقصد کیلئے ہے اور ہر واقعہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جبکہ ہماری سوچنے کی طاقت ہمارے معاملاتِ زندگی کے لیے ہدایتکار (Director) کا درجہ رکھتی ہے اور جو خیال ذہن میں ایک مرتبہ پیدا ہو جاتا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتا جبکہ وہ اپنی قوت اور مماثلت کے حساب سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قلم جس سے میں لکھ رہا ہوں اور یہ پنکھا جس کی ہوا میں میں بیٹھا ہوں اور وہ کرسی جس نے مجھے بیٹھنے کی سہولت دی ہے اور وہ میز جس کے مرہون منت اِس تحریر کو لکھنے کی معاونت مل رہی ہے اور وہ بلب جس کی روشنی میں مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا ہے اور یہ کاغذ جس پہ میں لکھ رہا ہوں اِن میں سے کوئی بھی بے مقصد نہیں بلکہ ہر شے اپنا مقصد پورا کر رہی ہے۔ اِن میں سے اگر کوئی بھی ایک شے اپنا مقصد پورا نہ کرے تو ہم فوراً اِس کو ردی کی ٹوکری یا کوڑے کے ڈبے میں پھینک دیں گے کیونکہ جو اپنے مقصد سے ہٹ جائے وہ ہمارے لیے بے کار ہے۔ اب اگر قلم (Pen)میں سیاہی ختم ہو جائے یا میز کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا پھر پنکھا ہوا دینا بند کر دے یا بلب روشنی دینا بند کر دے (Fuse) تو کیا خیال ہے اِن کو ہم ایک لمحہ مزید برداشت کریں گے؟ جی ہاں ایک لمحہ بھی نہیں کیونکہ اِس سے ہماری روانی میں خلل آتا ہے اور ہمارے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی چیز (چاہے وہ بے جان ہی کیوں نہ ہو) اگر اپنے کام اور مقصد سے ہٹ جائے گی تو وہ بالکل بے کار اور بے مقصد ہو جائے گی اور ہم اِسے ضائع کر دینا پسند کرتے ہیں، تو کیا خیال ہے ہم بغیر کسی مقصد کے پیدا ہوئے ہیں؟ ہم جو اِس کارخانہ قدرت کے عظیم شاہکار ہیں کِس کام پر لگے ہوئے ہیں، آیا ہم کارآمد ہیں یا بے کار ہو چکے ہیں؟اگر بے کار ہو چکے ہیں تو قدرت نے ابھی تک ہمیں ردی کی ٹوکری میں کیوں نہیں پھینکا؟ قدرت نے کائنات کی ہر شے ہمارے لیے تخلیق کی ہے جس طرف بھی نظر دوڑائیں کائنات کی ہر شے آپکے آ پنے لیے نظر آئے گی او ر اپنے وجود کے ہونے کا مقصد کو پورا کر رہی ہوگی۔ پھولوں میں خوشبو ہمارے لیے ہے اور پھلوں میں رس ہمارے لیے ہے، آبشاروں کے گیت ہمارے لیے ہیں، سرسبز و شاداب پہاڑوں کی بلند چوٹیاں جو دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں وہ بھی ہمارے لیے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی سب مخلوق (Creature) ہمارے لیے مسخر کر دی گئی ہے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کِس لیے ہیں۔ کائنات کی ہر شے دوسروں کے فائدے کیلئے ہے (نہ کہ اپنے لیے) جبکہ ہر چیز دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے اور انکے لئے کس طرح فائدہ مند ہونا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے سب کے ساتھ اِن روابط سے رہنا ہے جن کے باعث ایک صحت مند معاشرہ جنم لے اور زندگی کے ثمرات بحیثیت مجموعی حاصل کرنے ہیں ورنہ ایک شخص کی زندگی کے ثمرات اُس کیلئے بے معنی ہیں جب تک کہ وہ دوسروں کو اِس میں شامل نہ کرے۔ ہم کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟

آپ اگر گھڑی کو سامنے رکھ کر بیٹھ جائیں اور وقت کا گزرنا ملاحظہ کریں تو یقینا آپ گھنٹوں بھی بیٹھیں رہیں گے مگر آپ کو گھنٹوں اور منٹوں والی سوئیاں ساکن نظر آئیں گی جبکہ وقت گزرتا رہے گا یہ برف کی طرح پگھلتی زندگی کے ماہ سال صرف کسی اچھے وقت کے انتظار میں نہ گزار دیں بلکہ وہ لمحہ جو ہمیں بیدار کرتا ہے دراصل اِسی میں زندگی ہے اور باقی وہ لمحے اور پل ہیں جو ہمیں نیم خوابیدہ کرتے ہیں اور یہ وہ خود رو سلسلہ زندگی ہے کہ جہاں وقت کو ضائع کر رہے ہیں، وقت کو ہم اِسی طرح قید (Save) کر سکتے ہیں کہ اپنے پل زندگی کے بیدار لمحوں سے سیراب کر دیں۔

ترمیم