محمد اسد جلبانی

محمد اسد جلبانی ۳۰ نومبر ۲۰۰۰ کو پاکستان کے شہر ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ کے ایک گاؤں بستی جلبانی میں پیدا ہوئے۔ آپ دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب سرکاری ملازم ہیں۔ آپ کے پر دادا مولانا قادربخش جلبانی اور دادا الحاج محمد امین جلبانی نے اپنی زندگی دین پر وقف کر دی۔ محمد اسد جلبانی جب پیدا ہوئے تو ابتدائی نام محمد اسد رکھا گیا۔ جلبانی ان کی ذات یے جو بلوچ قبیلہ ہے۔ مادری زبان سرائیکی ہے۔

محمد اسد جلبانی نے ابتدائی تعلیم مسجد سے لی۔ جامع مسجد انوار محمدیہ بستی جلبانی سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ اور ساتھ میں منہاج پبلک سکول کوٹ چھٹہ میں داخل کروادیا گیا۔ ابھی دوسری جماعت میں تھے کے ان کے تایا منیر احمد خان جلبانی بلوچ نے اپنے علاقح میں ایک مڈل سکول ،روشن تارا ایلیمنٹری سکول قائم کیا تو محمداسد کو وہیں داخل کرادیا گیا۔جہاں انہوں نے مڈل پاس کی۔اس کے بعد میٹرک کے لیے. ایک پرائیویٹ سکول دارین پبلک ہائی سکول کوٹ چھٹہ میں داخل کرایا گیا،مگر دو ماہ بعد ہی محمد اسد کے اصرار پہ وہاں سے ان کا داخلہ کوٹ چھٹہ کے ایک مشہور سکول لاریب ہائی سکول میں کرایا گیا ۔جہاں انہیں سر امیر بخش برمانی،سر برکت علی برمانی ،سر قنبر حسین برمانی،سر کلیم اللہ برمانی اور سر شکیل احمد جلبانی جیسے قابل اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔ میٹرک کے امتحان کے بعد محمداسد نے انٹر کےلیے ڈیرہ غازی خان کا انتخاب کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج بوائز ،بلاک ۱۷ ڈیرہ غازی خان میں ایف۔ایس۔سی میں داخلہ لیا اور ساتھ میں ڈیرہ غازی خان کی مشہور اکیڈمی الحمد ایوننگ اکیڈمی میں داخلہ لیا ،جہاں انہیں پروفیسر امان اللہ بھٹہ،پروفیسر تنویر حسین صاحب،پروفیسر فاروق صاحب،پروفیسر طارق صاحب،پروفیسر صابر جروار،پروفیسر عمران بخاری اور پروفیسر آفتاب صاحب جیسے قابل اساتذہ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ۲۰۱۸ میں انٹر کرنے محمد اسد کا رجحان اردو کی طرف زیادہ شاعری کرنا شروع کر دی تھی اور ساتھ میں ان کے کالم بھی چھپنے لگے اور درجن سے زیادہافسانے بھی لکھ چکے ہیں اس لیے انٹر کے بعد بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بی۔ایس۔اردو میں داخلہ لیا مگر دو ہفتے کلاس لینے کے بعد مالی حالات کی وجہ سے اپنے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان میں غازی یونیورسٹی میں بی۔ایس اردو میں داخلہ لیا جہاں اب بھی زیر تعلیم ہیں۔ وہ ڈاکٹر مزمل حسین صاحب،ڈاکٹر راشدہ قاضی صاحبہ،ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ،ڈاکٹر اقبال کامران،محمد خان کھوسہ صاحب،اظہر حسین کلیانی صاحب اور میڈم رابعہ یاسمین جیسی شفیق ہستیوں کے زیر سایہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

محمد اسد جلبانی کی شاعری کی ایک خاص وجہ ان کا اپنا ایک اسلوب ہے۔ جو قاری پر رقت طاری کر دیتا ہے۔ وہ خوبصورت الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں۔ ان کے اشعار اتنے آسان و سادہ ہیں کہ ہر عمر کا شخص اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور اسکے مفہوم تک پہنچ سکتا ہے۔ ان کی شاعری  کا خاص موضوع عشق و محبت کے علاوہ لوگوں کی اداسیوں کو ختم کرنے کےلیے ایک دوا ہے۔

محمد اسد جلبانی کا کلام :

۔ ۔ ۔ ۔ غزل  ۔ ۔

اداس    چہرے   چھپا    کے   لوٹ    آئے    ہیں

درد    دل   میں   سجا    کے   لوٹ   آ ئے    ہیں

دید  و  دید   کی   آرزو   لئے   چلے   گھر    سے

خالی    دامن    اٹھا    کے     لوٹ     آ ئے    ہیں

قصہ  سوز  جگر  آج  تھا  سنانا  ان   کو  '  مگر

در  و   دیوار   کو   سنا   کے    لوٹ   آ ئے    ہیں

ان کا ہنسنا وہ مڑ کے تکنا یہ خواب  تھے سارے

خواب  اپنے  وہ  سارے جلا  کے  لوٹ  آ ئے  ہیں

میں  نے  دیکھا  ملی   ہیں  جہاں   کو   خوشیاں

ایک ہم تھے جو  آنسوؤں بہا  کے لوٹ  آ ئے  ہیں

ہوا   ہے  کس  کو   بھلا   وصل   یار   بے   پرواہ

بس دل کے آنگن کو سولی چڑھا کے لوٹ آئے ہیں

شاعر محمد اسد جلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کی زندگی سے دو ہاتھ کر لیا

جانے    والے.  نے   کمال   کر   دیا

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔

اداس لوگوں کی محفلوں میں

آوارہ  لوگوں  نے  زندگی  ہاری

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیا سال محبتوں کا بھرم رکھنے کے لیے

تمام  غم   بھلانے  کو  '  بڑا  دلاسہ   ہے

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔     

خاک ہو جائیں گے تجھے دیکھنے والے..

تیری آنکھیں محبت کا نشہ دیتی ہیں..

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بڑا جان لیوا صدمہ ہے

تمہارا  نظر انداز  کرنا

محمد اسد جلبانی ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔  

اظہار  محبت ہی  تو جان لیتا ہے..

بے وفائی  کون  کرتا  ہے  پیارے؟؟

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اسے ڈھونڈتا رہ جاتا ہوں

وہ   پس  پردہ  چھپا  رہتا  ہے

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔   

ایسی عمدہ  مثالیں  چھوڑ  جائیں  گے

بےقدری کرنے والے زاروقطار روئیں گے

محمد اسد جلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسد ہم  نہیں  تو '  کوٸی ہم سا ہوگا

تم جسے چاہو گے وہ بھی انساں ہوگا

محمد اسد جلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ  فقط  ان  کی  عنایت  ہے  وگرنہ  اسد

آج کے دور میں وبا عام نہیں ہوتی یونہی

محمد اسد جلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل ______محمد اسد جلبانی ۔۔۔

عجیب رنگ سے ' عجیب روپ میں ' ڈھل رہا ہے وہ

ہر  نئے   روز   ' مثل   موسم  '   بدل  رہا   ہے   وہ

آج   یہاں '  کل  وہاں '  نہ   جانے    کب  کہاں

برستی بارش سے'سلگتی دھوپ میں'چل رہا ہے وہ  

ہم سے بھی رہے ہیں ' مراسم مختصر ' ان کے مگر

اب تو میری سوچ سے بھی آگے ' نکل  رہا  ہے  وہ

اب  تو  اپنے  ہی  قاعدوں  سے  مڑ   گیا   ہے   وہ

جس سے روکا تھا مجھے'خود اس سے جڑ گیاہےوہ

ٹھوکریں کھا کے لوٹ بھی آؤ تو ' اسد ملے گا وہاں

مٹی کے ڈھیر پہ ' اس کے نام کی تختی نسب ہوگی جہاں

محمّد اسد جلبانی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شب اسی گمان  میں  گزری اسد

بچھڑنے والے کسی پہرآ ملیں گے

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔

محبتوں کے سارے خسارے

تری دید سے پورے ہوتے ہیں

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے لہجے نے مجھے مرنے پہ مجبور کیا

ورنہ خودکشی تو میرے مذہب میں حرام ہے

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔

تیرا   ذکر  نئی  زندگی  بخشتا  ہے  مجھے

میری اداسیاں ترے دم سے ختم ہوتی ہیں

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔

نئی صورت پہ نثار ہوتے ہیں  سبھی  لوگ  اسد

ہم وہی ہیں جو تجھے پہلے کی طرح چاہتے ہیں

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔

کس نے سیکھا ہے آوارگی کا طریقہ اسد

عشق   سب   کو  آوارہ  بنا  دیتا  ہے

محمداسدجلبانی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

ہر کوئی عہد کر رہا تھا خدا سے بندگی کا

وبا کے دن تھے اور ہم تیرے لیے رو رہے تھے

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج پھر کوٸی جذبات سے کھیل گیا اسد

بھری   محفل   میں  آدھا   رہ  گیا   ہوں

محمداسدجلبانی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہجر اگر آسانی سے برداشت ہوتا

محبتیں روز نیلام کی جاتیں

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔

وہ ایک شخص جس کے واسطے رعایت دی گئی

وہی ایک شخص تمہیں سوچتا ہے صبح و شام

محمداسدجلبانی

۔۔۔

جو کرگیا ہے آپ سے دو ہاتھ چھوڑیے

اس شخص کی۔مثال کو بس آپ چھوڑئے

سننے سے تو سنائی نہیں دے گا اب کچھ

اس شخص کی سنائی کو بس آپ چھوڑئیے

محمداسدجلبانی

۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم زمیں زادے محبت کے علم تھام کر

شر پسندوں سے بغاوت پہ اتر آتے ہیں

محمدآسدجلبانی۔۔