خانوادہ سرحدی گاندھی ( باچا خان ) نے قوم پرستی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے , کبھی اونچے تو کبھی دھیمے سروں میں لر و بر اور پشتون حقوق کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن باچا خان کو اپنے شاعر بیٹے " غنی خان " کے لیے لر و بر میں کوئی لڑکی نہ ملی , چارسدہ سے چلا تو سیدھا نواب رستم جنگ پارسی کے دروازے پر جا کر رکا اور اس کی بیٹی اپنے بیٹے سے بیاہ دی. یہی نہیں حیدر ہوتی کی والدہ پر سوکن لایا اعظم ہوتی تو لاہور کی ایک پنجابن , اعظم ہوتی نے داعی اجل کو لبیک کہا تو پشتون حقوق کے علمبردار سپوت نے اپنی سوتیلی والدہ کو شوہر کے حصے کا مطالبہ کرنے پر خوب رج کے ذلیل کیا ابھی ٹھہریں افراسیاب جو پشتون حقوق کے سب سے بڑے چمپئین ہونے کا تاثر دیتے ہیں انہیں بھی اپنی بیٹی کے لیے لر و بر میں کوئی شڈل پختون نہیں ملا , ان کی نگاہ انتخاب اگر ٹھہری تو پنجابی مشاہد حسین سید کے لونڈے پر عرض کرنے کا مقصد قوم پرستی کے خود ساختہ علمبردار اگر افغان و پشتون کا چورن آپ لوگوں کو نہ بیچیں تو بھوکے مر جائیں گے ان کے سیاسی کوکھے یہی باسی مال فروخت کر کے چلتے ہیں