عرفان ساگر(Irfan Sagar) کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور سینئر صحافی ہیں ۔انہوں نے 1994سے صحافت کا آغاز کیا ۔اس وقت کراچی کے ایک موقر روزنامہ ”قومی اخبار“سے وابستہ ہیں انہوں نے ”کڑواہٹ“ کے عنوان سے متعدد کالم بھی لکھے ہیں ملک کے موقر اخبارات میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ دھوم اور سماء ٹی وی چینلز میں بھی کام کرچکے ہیں

عرفان ساگر تیکھے انداز میں کالم تحریر کرتے ہیں ان کا حالیہ کالم ”جرائم زدہ کراچی“بھی پیش خدمت ہے۔

جرائم زدہ کراچی!!

عرفان ساگر

کراچی اس وقت امن وامان میں بہترین لیکن اسٹریٹ کرائم میں بدترین درجے پر پہنچ گیا ہےڈھائی کروڑ آبادی کے شہر میں حالیہ آپریشن کے نتیجے میں اغواءبرائے تاوان کے واقعات میں حیران کن کمی جبکہ ڈکیتیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہےحالیہ آپریشن کا کریڈٹ اگرپولیس کو دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اسٹریٹ کرائم کس کے کھاتے میں ڈالے جائیں ؟۔جرائم کی روک تھام خالصتاً پولیس کا کام ہے ٹارگٹ کلرز جب رینجرز کے ”ٹارگٹ“پرہیں تو ڈاکوبھی پولیس کے ”رحم وکرم “پر ہونے چاہئیں۔

کراچی دنیا میں چھٹے خطرناک ترین شہرسے 69ویں نمبر پر آگیا ہے لیکن شہر میں”کرائم ریٹنگ“50فیصد تک موجود ہے۔۔۔۔۔سوشل میڈیاکی بدولت وہ اسٹریٹ کرائم بھی رپورٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں جن کا تذکرہ تک نہیں ہوتاتھا۔۔۔۔۔۔ماضی میں سومیں سے صرف دس واقعات ایف آئی آرتک پہنچتے تھے اور عدالت پہنچنے والے مقدمات کی تعداد نصف رہ جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔کوئی بھی شہری ایک موبائل کے لئے دوسری ”موبائل “کا رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔دو‘چارہزار روپے کے لئے کوئی تھانے نہیں جاتا تھا کیونکہ خدشہ موجود تھا کہ کہیں اس سے زیادہ ”خرچہ“ نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔ ایف آئی آراُن موٹر سائیکلوں کا مقدر بنتی تھی جن کی انشورنس ہوچکی ہو۔۔۔۔۔۔اور خانہ پوری ہوجائے ۔۔۔۔۔۔لیکن اب تو خبریں ثبوت کے ساتھ خود دوڑ کرپہلے سوشل میڈیا اور پھر الیکٹرانک میڈیا کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔۔۔۔۔۔300مقامات پر نصب 3ہزارکیمرے ڈھائی کروڑ آبادی کے لئے یقینا ناکافی ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ان کیمروں سے اب تک سیکڑوں ایسی ویڈیوز موصول ہوچکی ہیں جن میں بے خوف کرمنلز پولیس کی ساکھ کی دھجیاں اُڑاتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔نہ رومال باندھنے کا جھنجھٹ ‘نہ ہیلمٹ سے منہ چھپانے کی کوشش اور نہ ہی چہرہ بے نقاب ہونے کا خوف پھر بھی پکڑے نہ جانا ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید نئے آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی صاحب کے پاس ہو۔۔۔۔۔۔تصورکریں اگر اس شہر میں ڈیڑھ سے دولاکھ کیمرے نصب ہوں تو کتنی ویڈیوز منظر عام پر آئیں گی اور اس سے اہم بات یہ کہ کتنے اسٹریٹ کرمنلز گرفتار ہوپائیں گے۔۔۔۔۔۔۔کراچی پولیس نے 2017میں ایک ویڈیوسویلین پراجیکٹ تجویز کیا تھا جس کے تحت 2ہزار مقامات پر 10ہزار کیمرے لگائے جانے تھے ۔۔۔۔۔۔لیکن یہ کیمرے نہ آئے اور نہ انسٹال ہوئے ۔۔۔۔شاید اسٹریٹ کرائم مزید بڑھنے کا انتظار ہورہا ہے ۔

کراچی پولیس چیف کی تبدیلی سے شہریوں کو ایک امید ہوئی کہ شاید اب اسٹریٹ کرمنلز کے دن گن لئے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔اب وہ قانون کی گرفت میں ہوں گے۔۔۔۔۔۔انہیں سزائیں ملیں گی ۔۔۔۔۔۔کچھ پھانسی گھاٹ جبکہ باقی جیل کی کال کوٹھریوں میں اپنی زندگی پوری کریں گے ۔۔۔۔۔اے آئی جی ڈاکٹرامیر شیخ نے آتے ہی اسٹریٹ کرائم بڑھنے کا اعتراف کیا اور یقین دہانی کرائی کہ کراچی کو سیف سٹی بنائیں گے ۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ شہریوں کو نظر آئے گا کہ جرائم کم ہورہے ہیں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ڈاکوﺅں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ پندرہ دن میں جرائم کا خاتمہ کردیں گے ۔۔۔۔۔۔لیکن حیرت تو اس وقت ہوئی جب ان بڑے بڑے دعوﺅں کے بعدجرائم کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے ۔۔۔۔ اسٹریٹ کرمنلزنے کراچی پولیس چیف کوکھلا چیلنج کرتے ہوئے سرکاری گاڑیاں بھی چھیننا شروع کردیں۔

پنجاب میں نام کمانے اور وہاںایک واقعہ میں ”کمپرومائز“کرکے ”شہرت“پانے والے آئی جی امجد جاوید سلیمی اب آئی جی سندھ ہیں۔۔۔۔پنجاب کے مقابلے میں سندھ کے شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں جرائم کم کرنا آسان ہے ۔۔۔۔۔۔لاہور اسٹریٹ کرائم میں کراچی سے پیچھے ہے ۔۔۔لیکن جب چوکیداراور چورآپس میں ”شادی“کرلیں توان سے ”جرم “ہی پیداہوگا۔۔۔اورایسے مجرم” فارمی مرغی“کی طرح ہفتوں میں ”جوان “بھی ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس لئے ایسی کالی بھیڑوں کو پولیس کے محکمے سے جب تک ”گیٹ آﺅٹ“نہیں کیا جائے گا دیگر ”سفید بھیڑیں“بھی جرائم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔۔۔۔۔۔پراسیکیوشن کا فرسودہ نظام دوسری اہم وجہ ہے جو کرمنلز کی حوصلہ شکنی نہیں کرپاتا۔۔۔۔۔۔گرفتارہونے والے اسٹریٹ کرمنلز جتنی تیزی سے ”اندر“جاتے ہیں اس سے دس گنا زیادہ تیز رفتاری سے ”باہر“آکر اپنا ”کاروبار“چمکانا شروع کردیتے ہیں ۔

اس امکان کو بھی ہر گز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کراچی میں ڈاکوﺅں کے منظم گروہ تو شاید کم ہوں ۔۔۔۔۔۔لیکن ”بے روزگار فوج“کو جب قلم اورذہن کا کام نہیں ملے گا تو وہ پستول کو اپنا” انویسٹ منٹ“اور اس سے حاصل رقم کو اپنا” منافع“ہی سمجھیں گے ۔۔۔۔۔۔پیشہ ور ڈاکوﺅں کے مقابلے میں ”اناڑی ڈاکو“مال کے ساتھ ساتھ جان کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گھبراہٹ ‘ناتجربہ کاری اورخوف کی وجہ سے یہ” اتائی ڈاکو“بنتے جارہے ہیں جو مال سے زیادہ جان کے لئے خطرناک ہیں۔

کراچی میں پولیس مقابلے بھی اتنے مشکوک ہیں کہ فوری طور پر پولیس کا دعویٰ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔۔۔تفتیش‘تحقیق اور چھان پھٹک کے بعد جو صورتحال سامنے آتی ہے اس میں نصف مقابلے اصلی جبکہ اتنے ہی ”جعلی“قرار پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔نقیب اللہ اور انتظار قتل کیس کی حالیہ مثالیں ہمارے سامنے اس لئے موجود ہیں کیونکہ انہیں میڈیا نے ”زندہ“رکھا۔۔۔۔لیکن” انصاف ٹرین “کی رفتار مال گاڑی سے بھی کہیں دھیمی ہے۔۔۔۔اور” ضمانت ایکسپریس“کئی اسٹیشنز پر رُکے بغیر ہی منزل مقصود تک پہنچ جاتی ہے ۔۔۔نقیب اللہ کیس کے اہم ترین ملزم کو”قید“بھی اپنے گھر میں ہی ملی اور ضمانت بھی وہیں سے ہوئی۔۔۔۔یوں جیل جانے کا خرچہ بھی بچ گیا۔

فروری سے جولائی تک چھ ماہ میں 18ہزار موبائل فون ‘چارسوگاڑیاںاورگیارہ ہزار موٹرسائیکلیں شہریوں سے چھین کر”پارسل“کردی گئیں۔۔۔۔۔۔اغواءبرائے تاوان کے 5جبکہ بھتہ خوری کے 30واقعات رپورٹ ہوئے ۔۔۔۔لیکن اگست کے ایک مہینے میں ساڑھے3ہزارموبائل فون‘2900موٹرسائیکلیں اور140گاڑیاں چھینی گئیں ۔۔۔۔۔اغواءبرائے تاوان کے 2جبکہ بھتہ خوری کے 5واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔۔۔۔۔ اعدادوشمارسے صاف ظاہر ہے کہ ”ہیومین انٹیلی جنس“سی سی ٹی وی کیمروں سے زیادہ موثر ثابت ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔اغواءمیں کوئی کیمرہ استعمال نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔بھتہ خوری بھی کسی سی سی ٹی وی کی محتاج نہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن جب کرمنلز میں خوف ہو تو ارادہ عمل سے پہلے ہی دم توڑ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔حقائق بتاتے ہیں کہ کراچی میں رینجرز کا خوف ٹارگٹ کلرزاوردہشت گردوں پرتو موجود ہے لیکن پولیس کا جرائم پیشہ افرادپر وہ خوف نہیں جو انہیں” پیشہ “بدلنے پر مجبور کرسکے۔

ہم بھی عجیب قوم ہیں جو ملزمان ہمارے شہروں میں دندناتے پھرتے ہیں ۔۔۔وارداتیں کرتے ہیں ۔۔۔لوٹ مار میں ملوث ہیں ۔۔۔۔شہریوں کو اغواءکرتے ہیں۔۔۔۔۔تاوان مانگتے ہیں۔۔۔۔بھتہ طلب کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔مزاحمت پر قتل تک کردیتے ہیں ۔۔۔۔ایسے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنہیں پاتے لیکن لندن اور دبئی سمیت بیرون ممالک میں موجود ملزمان کو گرفتارکرنے کی کوششیں ضرور کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ان کےلئے قانون بھی بناتے ہیں اور ترامیم بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔انٹرپول سے رابطہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ریڈ وارنٹ جاری کراتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جہازوں میں سفرکرکے ان کے لئے دیگر ممالک کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ” انہیں ہمارے حوالے کردیا جائے “یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ ملزمان قومی خزانے کے ڈاکو ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن وہ ڈاکوجو شہریوں کولوٹتے ہیںانہیں جان سے مارتے ہیں ان کے لئے اگرہم ایسی دس فیصد کوششیں بھی کرلیں تو کرائم ریٹ صفر ہوجائے گا۔