صارف:Khaatir/تختۂ مشق
یہ صفحہ Khaatir کا تختہ مشق ہے۔ صفحہ تختہ مشق صفحہ صارف کا ایک جز ہوتا ہے، اور دائرۃ المعارف میں تحریری تجربہ کے لیے انتہائی مناسب جگہ ہے؛ یہاں صارفین ہر قسم کے تجربات آزادی سے کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ دائرۃ المعارف کا کوئی مضمون نہیں ہے۔ اپنے مخصوص تختہ مشق کی تخلیق کے لیے یہاں کلک کریں۔ دیگر تختہ ہائے مشق: عمومی تختہ مشق | سانچے کا تختہ مشق | اسکرپٹ کا تختہ مشق |
ذیلی عنوان 1
ترمیمالسلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
ذیلی عنوان 2
ترمیمیہ سلام ہے، ملاقات کرنے والے کو پہلے پہل اپنی ملاقات کا آغاز اس دعائیہ جملے سے کرنا چاہیے۔
ذیلی عنوان 2
ترمیمبات کرنے سے پہلے سلام کرو
- السلام قبل الکلام
√
ترمیمھھ
- ↑ جو کچھ بھی ہوں، اسی پروردگار کا فضل ہے۔
”اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں! چومتا ہے بڑھ کے پیشانی کو تیرے آسماں۔“ (علامہ اقبال)
” | الحمد للّٰہ! ویکیپیڈیا پر میں نے بہت کچھ سیکھا۔
بحوالہ: تختہ مشق صفحہ صارف (000/0) |
“ |
الحمد للّٰہ! ویکیپیڈیا پر میں نے بہت کچھ سیکھا۔
—
” | الحمد للّٰہ الذی خلقنا و أعطانا الصحۃ۔ | “ |
” | فکر و جستجو جسے ہوگی
کامیابی اسی کی راہ میں ہے کلام: عارف گیاوی |
“ |
| ||
کریما ببخشائے بر حال ما | کہ ہستم اسیر کمند ہوا | |
نداریم غیر از تو فریاد رس | توئی عاصیاں را خطا بخش و بس |
15 اپریل 1967
4 مارچ 1988 20 فروری 2005 3 مئی 2021 (عمر 62 سال)÷
ترمیمجَہالت — صارف:Khaatir 13:59، 24 اپریل 2021ء (م ع و)
مشق
ترمیمفائل:سھھھ | |
مصنف | ععععت |
---|---|
صنف | ڑرر |
ناشر | ررر |
فخرِ جھارکھنڈ مولانا اسلام قاسمی اور ان کی سوانح حیات از: آفتاب ندوی جھارکھنڈ
کل بتاریخ 25 دسمبر 2024 بروز بدھ، ایک کتاب کے رسمِ اجراء کے ایسے پروگرام میں شریک ہونے کا موقع ملا جو کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل تھا اور جسے بہت دنوں تک یاد رکھا جائے گا۔ یہ پروگرام دیوبند کے جامعہ الامام محمد انور شاہ کشمیری کے ایک خوبصورت ہال میں بعد نمازِ مغرب تقریباً چھ بجے دارالعلوم دیوبند وقف کے شیخ الحدیث مولانا احمد خضر شاہ مسعودی بن مولانا انظر شاہ کشمیری کی سرپرستی میں شروع ہوا اور ساڑھے نو بجے ختم ہوا۔
وقف دارالعلوم دیوبند کے سینئر استاد حدیث و ادب مولانا محمد اسلام قاسمی کی حیات و خدمات پر مولانا مرحوم کے لائق فرزند مولانا بدر الاسلام قاسمی کی تصنیف و تالیف کیا شخص زمانے سے اٹھا (دو جلدوں میں) کے اجراء کے لیے اس پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ دیوبند کے اہلِ علم کے علاوہ کشمیر اور جھارکھنڈ جیسے دور دراز کے خطوں سے بھی مولانا کے محبین اور متعلقین شریکِ محفل ہوئے۔ جھارکھنڈ سے راقم کے علاوہ معروف سماجی کارکن مفتی محمد سعید صاحب مظاہری بھی رسمِ اجراء کے اس پروگرام میں شامل ہوئے۔ شرکاء میں مولانا کے معاصرین بھی تھے اور تلامذہ بھی۔ زیادہ تعداد ان علماء اور اہلِ قلم کی تھی جنہوں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔
تمام لوگوں نے مولانا مرحوم کے اخلاقِ کریمانہ، اساتذہ اور بزرگوں کے ساتھ ان کے سعادت مندانہ اور وفادارانہ تعلقات، دوستوں اور معاصرین کے ساتھ مخلصانہ و برادرانہ رویے، اور چھوٹوں اور شاگردوں سے مشفقانہ و ہمدردانہ برتاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے صاحبزادۂ گرامی بدر الاسلام قاسمی کو مبارکباد پیش کی کہ مولانا کی وفات کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے اور حیات و خدمات پر دو ضخیم جلدوں میں کتاب چھپ کر آ گئی۔
پہلی جلد مکمل طور پر بدر الاسلام کے قلم سے ہے، جس میں علاقے کا تعارف، خاندانی پس منظر، دادا دادی، والد والدہ، نانا نانی اور بھائی بہن کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان تمام لوگوں پر کوئی کتاب یا مضمون نہیں تھا، ایسے لوگوں پر لکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے، یہ امانت دار اہلِ قلم جانتے ہیں۔ پھر مولانا مرحوم کے تعلیمی سفر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مکتب کی تعلیم سے لے کر دارالعلوم دیوبند میں کتابت و افتاء تک کی اعلیٰ تعلیم کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔ جامعہ حسینیہ گریڈیہ، اشرف المدارس کلٹی، مظاہر علوم سہارنپور، دارالعلوم دیوبند اور ان کے اساتذہ کے اسمائے گرامی ان کے احوال کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں۔
ان شخصیتوں سے مولانا مرحوم نے استفادہ کیا تھا، ان میں حکیم الاسلام قاری طیب رحمہ اللہ اور محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ کے بارے میں بھی مولانا کے تاثرات شاملِ کتاب کیے گئے ہیں۔ یہ باب خود مولانا مرحوم کے قلم سے ہے۔ وفات سے پانچ سال پہلے مولانا کی یہ کتاب میرے اساتذہ، میری درس گاہیں: درخشاں ستارے کے عنوان سے منظرِ عام پر آئی تھی۔ اجلاسِ صد سالہ کے بعد دارالعلوم دیوبند میں جو انقلاب آیا اور جس کے نتیجے میں قاری محمد طیب رحمہ اللہ کی سرپرستی میں وقف دارالعلوم کا قیام ہوا اور کن پریشانیوں اور مشکلات سے وقف کے بانی، اساتذہ، معاونین اور رفقاء کو گزرنا پڑا، اس کے احوال بھی اختصار سے شامل کیے گئے ہیں۔
بیرونِ ملک کے علمی اسفار، تدریسی و تحریری خدمات، الداعی کی کتابت و تزئین، عربی الثقافہ کی ادارت، معروف تلامذہ، اداروں کی تاسیس و سرپرستی، تنظیموں سے وابستگی، مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کا تعارف اور اخلاقِ فاضلہ و اوصافِ حمیدہ جیسے عناوین کے تحت زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ جلد 565 صفحات پر مشتمل ہے۔ زبان سلیس و شگفتہ، ترتیب فطری و عمدہ، اور اسلوب سہل و مؤثر ہے۔
دوسری جلد 673 صفحات پر مشتمل ہے اور تقریباً ڈیڑھ سو علماء، اہلِ قلم، اعزہ و اقارب اور شعراء نے نظم و نثر میں فخرِ جھارکھنڈ مولانا محمد اسلام قاسمی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس جلد میں مولانا محمد سفیان قاسمی، مولانا احمد خضر شاہ مسعودی، مولانا بدر الحسن قاسمی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا ندیم الواجدی، مولانا عتیق احمد بستوی، ڈاکٹر تابش مہدی، مولانا فرید الدین قاسمی، مفتی احسان قاسمی، مولانا انیس الرحمان قاسمی، قاری ابو الحسن اعظمی، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، مولانا عطاء الرحمان قاسمی، مولانا عبد المتین منیری بھٹکلی، مولانا حسان قاسمی کویت، مولانا ثمیر الدین قاسمی انگلینڈ، خالد اعظمی کویت، مولانا عبد الباسط ندوی، مولانا قمر الزماں قاسمی، نایاب حسن قاسمی، مفتی امتیاز قاسمی، قمر الزماں ندوی، مفتی جمیل اختر جلیلی، مفتی ناصر الدین مظاہری، مولانا محمد سعیدی ناظم مظاہر علوم، ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند وقف، مولانا شمشاد رحمانی اور جناب حفیظ الحسن وزیر حکومتِ جھارکھنڈ جیسے اہم لوگوں کے مضامین و تاثرات شامل ہیں۔
اہلیہ محترمہ، صاحبزادوں، صاحبزادیوں، بہوؤں، بھتیجوں اور پوتوں پوتیوں کی جذباتی تحریروں نے کتاب کو انتہائی مؤثر اور پرلطف بنا دیا ہے۔ ان مضامین کو پڑھنے والا شاید ہی اپنی آنکھوں پر قابو رکھ سکے۔
طباعت دیدہ زیب، کاغذ معیاری اور ٹائٹل جاذبِ نظر ہے۔ اس کے ساتھ مولانا مرحوم کی یا ان کے بارے میں پانچ تصنیفات کا بھی اجراء ہوا: چند مقتدر شخصیات، نگارشات اسلام، دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفر، مقالات حکیم الاسلام اور شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی: زندگی کے کچھ پہلو۔
اس موقع پر ان طلبہ کو بھی انعامات سے نوازا گیا جنہوں نے مولانا مرحوم کے اوپر منعقدہ مقابلۂ مضمون نویسی میں حصہ لیا تھا۔
مولانا اسلام قاسمی کی شخصیت متعدد پہلوؤں سے اہمیت کی حامل تھی۔ یہ کتاب صرف مولانا مرحوم ہی کی سوانحِ حیات نہیں ہے بلکہ سیکڑوں بڑوں اور چھوٹوں کا تعارف نامہ بھی ہے۔