محمد نورالھدیٰ نورؔ ذبیحی بنارسی

ترمیم

صفحہ تبادلۂ خیال

  • نام محمد نورالھدیٰ اور تخلص نورؔ تھا والد صاحب کے نام کی طرف منسوب کرکے ذبیحی لکھتے تھے۔ ولادت 8 رمضان المبارک 1353ھ مطابق 16 دسمبر  1934ء کو ہندوستان کے تاریخی شہر بنارس صوبہ اتر پردیش میں ہوئی- یکم جولائی 2011ء  مطابق 29 رجب 1432ھ  بروز جمعہ صبح 7 بجے اپنی رہائش گاہ بنارس میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے-
محمد نورالھدیٰ نورؔ ذبیحی بنارسی
پیدائش 16 دسمبر  1934ء کو ہندوستان کے تاریخی شہر بنارس صوبہ اتر پردیش
وفات 1 جولائی 2011 ء  مطابق 29 رجب 1432ھ  بروز جمعہ صبح 7 بجے آپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے
رہائش بنارس، اتر پردیش، بھارت
اسمائے دیگر نوؔر ذبیحی بنارسی
پیشہ ادب سے وابستگی، بنارسی باڑی بُنکر
وجہِ شہرت شاعری، سماجی کارکن
مذہب اسلام

بچپن اور تعلیم

ترمیم

بنارس ہی آپ کا آبائی وطن رہا، آپ کے والد بزرگوار کا اسمِ گرامی مولوی محمد اسمٰعیل اور تخلص ذبیحؔ تھا جن کا استاذ الشعراء میں شمار کیا جاتا تھا۔

مرحوم ذبیحؔ صاحب کا سلسلۂ تلمذ حضرتِ امداد حسین رنگیںؔ بنارسی و مولانا عاقلؔ صاحب رامنگری سے ہوتا ہوا میر انیسؔ لکھنوی سے ملتا ہے۔

المختصر نورؔ صاحب نے سِن شعوری سے دیکھا کہ گھر کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر آپکی مکمل تعلیم گھر پر ہی ہوئی، لہذا موصوف دن کو کسبِ معاش میں مشغول رہتے، اور رات میں اپنے والدِ بزرگوار سے تعلیم حاصل کرتے۔

نیز یومِ اتوار رات 8 بجے سے موصوف کے والدِ محترم کے شاگردوں کی آمد ہوتی تھی جس میں اہلِ سخن اپنے کلام کی اصلاح لیا کرتے تھے، کبھی کبھی اچھی خاصی فلبدیہ محفل ہوجایا کرتی تھی۔

عموماً موصوف کے والد صاحب کبھی نورؔ صاحب سے بھی کوئی مصرع نکلواتے چنانچہ آپ کو مصرع موزوں کرنے کی اچھی مشق پیدا ہوگئی۔

نیز شاگردوں کی جو اصلاح ہوا کرتی تھی وہ بھی آپ بغور سنا کرتے اسی طرح آپ کو شعر گوئی سے دلچسپی بڑھتی گئی۔ والد کی وفات کے بعد نورؔ صاحب اپنے کلام کی اصلاح مرحوم منشی_ انور علی انورؔ بنارسی سے لیا کرتے تھے۔

الغرض منشی انور علی انورؔ بنارسی، غلام قادر گلزارؔ بنارسی، و نورؔ بنارسی صاحبان نے اپنے علاقے علوی پورہ بنارس میں ایک ماہانہ طرحی شعری و ادبی تنظیم 15؍مٸی 1957ء کو قائم کی۔

جو بزمِ گلزارِ ادب کے نام سے موسوم ہے۔

حافظ صدیق اللّٰه اکملؔ بنارسی کی وفات کے بعد عمرِ آخر تک آپ مذکورہ بزم کے صدر رہے۔

یکم؍جولائی 2011ء  مطابق ٢٩ رجب ١٤٣٢ھ  بروز جمعہ صبح 7 بجے آپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، آبائی قبرستان مینا کی تکیہ بنارس میں آسودہِ خاک ہیں۔

المختصر نورؔ صاحب نے سِن شعوری سے دیکھا کہ والدِ محترم کی زندگی حالِ غُربت میں بسر ہو رہی ہے اسی کے پیشِ نظر آپکی مکمل تعلیم گھر پر ہی ہوئی، لہذا موصوف دن کو کسبِ معاش میں مشغول رہتے، اور رات میں اپنے والدِ بزرگوار سے تعلیم حاصل کرتے-

نیز یومِ اتوار رات 8 بجے سے موصوف کے والدِ محترم کے شاگردوں کی آمد ہوتی تھی جس میں اہلِ سخن اپنے کلام کی اصلاح لیا کرتے تھے، کبھی کبھی اچھی خاصی فلبدیہ محفل ہوجایا کرتی تھی۔

عموماً موصوف کے والد صاحب کبھی آپ سے بھی کوئی مصرع نکلواتے چنانچہ آپ کو مصرع موزوں کرنے کی اچھی مشق پیدا ہوگئی-

نیز شاگردوں کی جو اصلاح ہوا کرتی تھی وہ بھی آپ بغور سناکرتے اسی طرح آپ کو شعر گوئی سے دلچسپی بڑھتی گئی۔

الغرض موصوف کے والد کی سرپرستی میں آپ کے علاقے علوی پورہ بنارس میں ایک ماہانہ طرحی شعری و ادبی تنظیم 15 مٸی 1947 کو قائم ہوئی-

جو بزمِ گلزارِ ادب کے نام سے موسوم ہے حافظ صدیق اللّٰه اکملؔ بنارسی کی وفات کے بعد عمرِ آخر تک آپ مذکورہ بزم کے صدر رہے-

حوالہ جاتترميم

ترمیم

https://www.punjnud.com/Articlesdetail.aspx?ArticleID=11789&ArticleTitle=Benares%20Shehar%20K%20Maroof%20Shair%20Muhammad%20Noor%20Ul%20Huda%20Noor%20Zabihi%20Ka%20Yom%20e%20Wiladat