خواتین شعرا میں ایک نامور شاعرہ

صفیہ شمیم
معلومات شخصیت

پیدائش

ترمیم

صفیہ بیگم تخلص شمیمؔ ہے، وہ 27 مارچ 1920ء کو ملیح آباد میں پیدا ہوئیں،

خاندان

ترمیم

وہ ایسے گھرانے میں پیدا ھوئیں جو معزز و مقتدر ھونے کے علاوہ نہایت باذوق گھرانا تسلیم کیا جاتا تھا ۔ جس میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آ رھی تھی ۔ چنانچہ شمیم صاحبہ کے مورث اعلیٰ حسام الدولہ تہور جنگ نواب فقیر محمد خان گویا سے لے کر آپ کے پر نانا نواب محمد احمد خان احمد تعلقدار کسمنڈی اور نانا نواب بشیر احمد خان تعلقدار ملیح آباد تک کوئی بزرگ ایسا نہیں ہے جو صاحبِ دیوان شاعر نہ ھو ۔ پھر سب سے آخر میں محترمہ کے حقیقی ماموں شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کے نام سے تو کون واقف نہیں ہے ۔ غرض کہ اس خاندانی تعلق کی موجودگی میں شمیم صاحبہ کا شعری ذوق بجا طور پر موروثی کہلانے کا مستحق ہے۔

تعلیم

ترمیم

صفیہ شمیم صاحبہ کا قیام عموما لکھنو میں رھا اور وھیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔

شعر و ادب

ترمیم

اس کے بعد گھر پر علمی شوق پورا کرتی رہیں ۔ اور یہیں انھیں وہ ادبی صحبتیں نصیب ھوئیں جن کی بدولت ان کا فطری شاعرانہ مذاق پروان چڑھا ۔ تقسیم ھند کے بعد آپ اپنے شریک حیات کے ساتھ پاکستان تشریف لے آئیں ۔ اور راولپنڈی میں قیام پزیر ھوئیں ۔ آپ کا کلام مختلف ادبی رسائل " ماہِ نو ، ساقی ، مخزن اور ھمایوں وغیرہ میں اکثر شائع ہوتا رھا ۔ صفیہ شمیم صاحبہ نے دس سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ۔ وہ حضرت جوش ملیح آبادی کے رنگ سے خاصی متاثر تھیں ۔ محترمہ شمیم غزل ، نظم ، رباعی غرض کہ ھر صنف میں طبع آزمائی کرتی رہیں ۔ آپ کے کلام میں رومانوی عنصر غالب ہے مناظر فطرت کی تصویر کشی میں آپ کو کمال حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ اپنے دور میں ان کا مقام صف اول کی شاعرات میں کیا جاتا تھا ۔

ادارت

ترمیم

آپ پاسبان کی نائب مدیرہ اور صبح نو کی مدیرہ بھی رہیں ۔

تصانیف

ترمیم
  • ’گریۂ تبسم‘،
  • ’آہنگ شمیم‘،
  • ’نوائے حجاز‘ (نعتیہ کلام) ۔

وفات

ترمیم

آپ کا انتقال راولپنڈی میں 20 ستمبر 2008ء کو ھوا۔