طاہر آفریدی پشتو اور اردو زبان کے معرو ف ترقی پسند اور قوم پرست افسانہ نگار.ادیب.ناول نگار.رپورتاژ سفرنامہ نگار اور سہ ماہی "جرس" پشتو کے بانی و مدیر تھے.

طاہر آفریدی
معلومات شخصیت
پیدائش 4 جنوری 1939ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
درہ آدم خیل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 جون 2021ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پشتو ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

پیدائش

ترمیم

4 جنوری 1939 کو درہ آدم خیل کے سب ڈویژن حسن خیل بوڑی سوکڑہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے،

عملی زندگی

ترمیم

شروع میں طاہر اثر کے نام سے شاعری کرتے تھے تاہم بعد میں انھوں نے طاہر آفریدی کے نام سے افسانے لکھنا شروع کیے اور اسی نام سے شہرت پائی وہ 1961 میں کراچی منتقل ہوئے تھے۔ ابتدا میں کار کلینر کی حیثیت سے کام کیا۔

بعد میں انھوں نے اپنی کمپنی بنائی اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ 1973 میں کراچی منتقل ہو گئے۔ ان کا کنبہ اب بھی میٹروپولیس میں مقیم ہے۔

تصانیف

ترمیم

انھوں نے اپنا پہلا افسانہ (”ستا نا پہ غم کے کمہ نا یم) 1961 میں لکھا اور چھپا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”د محلونو خوا کے“ (محلات کے سائے میں)، افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”پانڑے پانڑے“ (برگ در برگ)، تیسرا مجموعہ ”دیدن“ اردو، چوتھا مجموعہ ”لارہ کے ماخام“ (راستے میں شام) اور بقول ان کے یہ فردوس حیدر کے افسانوی مجموعے سے متاثر ہو کر ان سے پوچھ کر رکھا گیا تھا، پانچواں افسانوی مجموعہ ”بیا ہغہ ماخام دے“ (پھر وہی شام ہے)، چھٹا افسانوی مجموعہ ”نور خوبونہ نہ وینم“ (اور خواب نہیں دیکھوں گا)، ساتواں افسانوی مجموعہ پہ ”زنزیر تڑلے خوب“ (مقفل خواب)، آٹھواں افسانوی مجموعہ ”د سو لحظو لویہ قیصہ“ (چند لمحوں کا طویل قصہ)، نواں افسانوی مجموعہ ”مودہ پس اشنا راغلے“ (عرصہ بعد صنم آیا ہے)، دسواں اور آخری افسانوی مجموعہ ”ستاسرہ خبر ے“ (تیرے ساتھ مکالمہ) لکھے اور پشتو ادب میں جدید اور علامتی افسانے کے امام کہلائے۔ اسی طرح انھوں نے کئی ممالک کا سفر کیا جس کی روداد انھوں نے سفر ناموں اور رپورتاژ کی صورت میں سپرد قلم کی، جو اس طرح ہیں، ”سفر پہ خیر“ (سفر بخیر)، ”سفر مدام سفر“ (سفر در سفر)، ”جانان مے قطر تہ راون دے“ اور ”لاڑ شہ پیخور تہ“، ان رپورتاژوں کے نام پشتو کے مشہور فوکلور گیتوں سے اخذ کیے گئے ہیں جن کا ترجمہ ہے، بالترتیب (یارِ من پھر قطر کا رخت سفر باندھ رہا ہے) اور (پشاور چلے جانا)، ان میں ایک اور سفرنامہ ”زہ چے زو کابل تہ“ (چلو کابل چلتے ہیں) بھی شامل ہے۔ طاہر آفریدی نے ناول لکھنے پر بھی طبع آزمائی کی اور پہلا پشتو ناول ”کانڑو کے رگونہ“ (رگ سنگ) لکھا جس کا اردو ترجمہ پروفیسر اسیر منگل نے ”کہساروں کے یہ لوگ“ کے نام سے کیا ہے۔ اردو میں ایک ناول ”تیری آنکھیں خوب صورت ہیں“ لکھا جس کا پشتو ترجمہ ہمارے دوست شاعر ادیب اور صحافی بارک میاں خیل نے ”شین سترگے“ کے نام سے کیا ہے۔ آخری ناولٹ ”تربوزک“ (نقاب) لکھا جو حالت حاضرہ اور عصر حاضر کا حقیقت پر مبنی صورت حال بیان کرتا ہے۔ انھوں نے جرس ادبی جرگہ کی ماہانہ ادبی تنقید کی روداد پر مبنی ایک کتاب ”زہ تنقید خو بہ کمہ“ (تنقید تو میں کرتا رہوں گا) مرتب کی ہے۔ اسی طرح پشتو ادب کے مایہ ناز شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے خطوط پر مشمل کتاب ”گوتے قلم تہ پہ ژڑا شوے“ (انگشت بہ گریان قلم) بھی مرتب کی۔ اس کے علاوہ طاہر آفریدی کے مختلف مضامین پر مشمتل ایک کتاب حال ہی میں پشتو اکیڈمی کوئٹہ نے ”ادبی پانڑے“ (ادبی قرطاس) کے نام سے چھاپی ہے۔ طاہر آفریدی نے کراچی میں سال انیس نوے میں ”جرس ادبی جرگہ“ کی بنیاد رکھی اور ساتھ ساتھ ”جرس پشتو ادبی رسالہ“ کا بھی اجرا کیا۔

وفات

ترمیم

طاہر آفریدی طویل علالت کے بعد 6 جون 2021ء کو 82 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے، ان کے آبائی گاؤں بوڑہ کے قریب شریکیرہ محلہ شیرمیر میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انھیں وہیں سپرد خاک کر دیا گیا،

حوالہ جات

ترمیم