طوفان کو تھمانا یا مسیح کا طوفان کو تھمانا انجیل میں مذکور یسوع کا ایک معجزہ ہے۔ ماہرین کے مطابق بحیرہ گلیل میں اکثر و بیشتر طوفان اٹھتے رہتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب گرمی کے باعث کوہِ حرمون یا گولان کی پہاڑیوں سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ انجیل شریف اس واقعہ کو جو اُن مشتاق تجربہ کار ماہی گیروں کو پیش آیا بالتفصیل بیان کرتی ہے۔ "تب بڑی آندھی چلی اور لہریں کشتی پر یہاں تک آئیں کہ کشتی پانی سے بھری جاتی تھی۔ اور وہ خود پیچھے کی طرف گدی پر سو رہا تھا۔ پس انھوں نے اسے جگا کر کہا اے استاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں؟ اس نے اٹھ کر ہوا کو ڈانٹا او رپانی سے کہا چپ رہ! تھم جا؟ اب تک ایمان نہیں رکھتے؟ اور وہ نہایت ڈر گئے اور آپس میں کہنے لگے پس ”یہ کون ہے“ کہ ہوا اور پانی بھی اس کا حکم مانتے ہیں؟"[1]

یسوع کا طوفان کو تھمانا۔ مـصور Eero Järnefelt۔

تفسیر

ترمیم

اسی دن یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کو اپنے نئے طرز تدریس یعنی تمثیلوں سے روشناس کرایا تھا وہ کافی عرصہ سے آپ کی معیت میں تھے۔ اس لیے انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی قدرت اور اختیار سے نوازے گئے ہیں جو ان میں سے کسی کے مشاہدہ میں کبھی نہیں آیا تھا۔ فطرت کی قوتوں پر اس اختیار کو دیکھ کر انھیں سیدنا موسیٰ اور سیدنا یشوع یاد آئے ہوں گے جنھوں نے بحیرہ قلزم اور دریائے یردن کے پانیوں کو دو حصے میں کر دیا تھا۔ لہذا وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے "یہ کون ہے؟" اسی سوال نے انھیں مزید دو سال تک شش وپنج میں مبتلا رکھا۔ وہ ایمان اور بے اعتقادی، امید او رنا امیدی کے بھنور میں چکر کھاتے رہے کہ یسوع درحقیقت موعودہ مسیح ہیں یا نہیں، مگر انبیا نے اپنے زمانے میں بھی بڑی قدرت کا مظاہرہ کرکے عظیم الشان معجزات دکھائے تھے۔ لیکن اب وہ ان فرستادہ انبیا کی نسبت کہیں زيادہ باری تعالیٰ کی عظیم قدرت کار فرما دیکھ رہے تھے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. انجیل شریف بہ مطابق مرقس باب 4 آیت 47 تا 41
  2. سیرت المسیح ابن مریم، مصنف ایک شاگرد، مترجم وکلف اے۔ سنگھ