موسیٰ
موسٰی (انگریزی: Moses) ابراہیمی مذاہب کے ایک پیغمبر تھے۔ عبرانی بائبل کے مطابق، موسیٰ ایک مصری شہزادے تھے جو بعد میں مذہبی رہنما اور شارع رہنما بن گئے۔ جنھوں نے توریت تالیف کی تھی یا جن کو جنت سے توریت کا حصول ہوا۔ ان کو موشی ریبنو (מֹשֶׁה רַבֵּנוּ، لغوی معنی: "موسیٰ ہمارے استاد") بھی کہا جاتا ہے، یہودیت میں ان کو سب سے اہم پیغمبر تصور کیا جاتا ہے۔[9][10] اس کے علاوه ان کو مسیحیت، اسلام اور بہائیت کے ساتھ ساتھ دوسرے ابراہیمی مذاہب میں بھی اہم پیغمبر سمجھا جاتا ہے۔
موسیٰ | |
---|---|
(عبرانی میں: מֹשֶׁה) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 ہزاریہ ق م گوشن کی سر زمین [1]، حلوان |
وفات | 2 ہزاریہ ق م جبل نیبو [2] |
رہائش | مصر [3] جزیرہ نما سینا [3] مدین [3] |
نسل | بنی اسرائیل [4][3][5] |
طبی کیفیت | ہکلاہٹ [6] |
زوجہ | صفورہ تھربیس |
والد | عمران/عمرام |
والدہ | یوکابد |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | یشوع علیہ السلام [8]، الیعزر [8]، فینحاس [8] |
پیشہ | عسکری قائد ، مذہبی رہنما ، قانون ساز [3][4]، گلہ بان ، حاکم |
پیشہ ورانہ زبان | کنعانی زبانیں ، مصری زبان [3]، توراتی عبرانی ، عبرانی |
کارہائے نمایاں | الواح ، خروج |
درستی - ترمیم |
کتاب خروج کے مطابق، موسیٰ ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا تھے جب ان کی قوم بنی اسرائیل کو ایک اقلیتی غلام بنا کر رکھا تھا،جن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور فرعون فکر مند تھا کہ وہ لوگ مصر کے دشمنوں کے ساتھ اتحاد نہ کر لیں۔[11]
جب فرعون نے حکم دیا کہ تمام نوزائیدہ عبرانی لڑکوں کو ہلاک کیا جائے تاکہ بنی اسرائیل کی آبادی کم ہو سکے۔ تو عبرانی موسیٰ کی ماں یوکابد نے خفیہ طور پر انھیں چھپا دیا۔ جس لقیط (لاوارث بچہ) کو فرعون کی بیٹی (مدراش میں جس کی نشان دہی ملکہ بتیاہ کے نام سے ہوئی) نے اپنا لیا تھا جو اس کو دریائے نیل سے ملا تھا اور وہ مصری شاہی خاندان کے ساتھ پلے بڑھے۔ موسیٰ کے ہاتھوں ایک غلام کے مالک کے قتل ہو گیا جس کی وجہ سے موسیٰ بحیرہ احمر کے پار مدیان چلے گئے تھے (کیونکہ یہ مالک ایک عبرانی شخص کو مار رہا تھا)، مدیان میں ان کو رب کے فرشتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔[12] جس نے حورب پہاڑ میں جلتی ہوئی جھاڑی پر موسیٰ سے بات کی (جس کو انھوں نے خدا کا پہاڑ کہا)۔
خدا نے موسیٰ کو دوبارہ مصر بھیجا تاکہ وہ بنی اسرائیلیوں کو غلامی سے نجات دلا سکیں اور ان کی آزادی کا مطالبہ کریں۔ مگر موسیٰ نے کہا کہ وہ صاف صاف بول نہیں سکتے اور رُک رُک کے بولتے ہیں اور نہ اچھے الفاظ ادا کر سکتا ہیں۔[13] پھر خدا نے ہارون موسیٰ کے بھائی کو اس کی جگہ بات کرنے کو کہا۔مصری آفتوں کے بعد، موسیٰ نے بنی اسرائیلیوں کے مصر سے خروج اور بحیرہ احمر عبور کرنے میں قیادت کی۔ اس کے بعد وہ لوگ جبل موسیٰ میں آباد ہوئے۔ جہاں موسیٰ کو دس احکام موصول ہوئے۔ 40 سال صحرا میں بھٹکنے کے بعد جبل نیبو میں میدان تیہ پر موسیٰ انتقال کر گئے۔[14][15] ربیائی یہودیت کے مطابق موسیٰ 1391-1271 قبل مسیح تک زندہ رہے۔[16] جیروم کے مطابق 1592 قبل مسیح،[17] اور جیمس یوشر کے مطابق 1571 قبل مسیح ان کا پیدائش کا سال تھا۔[18]
نام
ترمیمموسیٰ کی پیدائش کا بائبلی نقطہ نظر اور لوک اشتیاق (غلط العام) اس کے نام کا ظاہری مطلب کی وضاحت کرتاہے۔[19][20] یہ نام فرعون کے بیٹی نے رکھا تھا[21][22][23][24][25][26]:
- ”فرعون کی بیٹی نے اس کا نام موسیٰ (موشی) رکھا کیوں کہ اُس نے اُس کو پانی سے حاصل کیا تھا۔“[27]
بائبل کی حکایات
ترمیماسرائیل کے پیغمبر اور نجات دہندہ
ترمیمیعقُوب اور یوسف کے دور میں بنی اسرائیلی سرزمین جاسان (جشن کا علاقہ) میں آباد تھے۔ اس وقت موسیٰ کی عمرام بن قہات لاوی کے گھر میں پیدائش ہوئی۔ جو یعقوب کے گھرانے کے ساتھ مصر میں داخل ہوئے تھے۔ ان کی ماں یوکابد تھیں، جو قہات کی رشتہ دار تھیں۔ موسیٰ کی ایک بڑی بہن تھی جس کا نام مریم تھا۔ جو ان سے عمر میں سات سال بڑی تھی۔ ان کے بھائی کا نام ہارون تھا۔ جو ان سے تین سال بڑے تھے۔منیتون کے مطابق موسیٰ کی جائے پیدائش قدیم شہر عين شمس تھا۔[28] بڑھتی ہوئی بنی اسرائیلی نسل کو دیکھ کر فرعون نے اپنے تمام لوگوں کو یہ حکم دیا : ”جب کبھی لڑ کا پیدا ہو تب تم اسے دریائے نیل میں پھینک دو لیکن تمام لڑ کیوں کو زندہ رہنے دو۔“ مگر موسیٰ کی ماں نے ان کو صندوق میں رکھ دیا۔ اور اس صندوق کو ناگر موتھا (ایک قسم کی لمبی گھاس) میں دریا کنارے چھپا دیا۔ جس کو فرعون کی بیٹی نے ڈھونڈ لیا اور اس بچے کو اپنا لیا۔ ایک دن جب موسیٰ بالغ ہو گیا تو اس نے ایک مصری کا قتل کر دیا کیونکہ وہ ایک عبرانی غلام کی پٹائی کر رہا تھا۔ موسیٰ فرعون کی موت کی سزا سے بچنے کے لیے مدیان فرار ہو گیا۔[12]
مدیان میں پہاڑِ حورب پر خدا وند نے موسیٰ پر وحی فرمائی اور موسیٰ کو اپنا نام یہواہ بتایا۔ اور اس کو مصر واپس جانے کا حکم دیا اور ان کے منتخب لوگوں (اسرائیل) کو غلامی سے چھڑا کر میدان تیہ (کنعان) لانے کا کہا۔ موسیٰ واپس مصر چلا گیا تاکہ خدا وند کے حکم کی تکمیل کرسکے۔ لیکن فرعون کے خدا کے انکار کی وجہ سے خدا نے مصر پر دس آفتیں بھجیں۔ جس کے آگے فرعون کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس کا دل نرم ہو گیا۔ موسیٰ بنی اسرائیلیوں کو مصر کی سرحد پر لے گئے تاکہ بحیرہ احمر کو عبور کر سکیں۔ لیکن وہاں خدا نے فرعون کا ایک بار پھر دل سخت کر دیا۔ تاکہ خدا فرعون اور اس کی فوج کو تباہ کرسکے۔ پھر خدا نے اس کو اور اس کی فوج کو تباہ کر دیا اور خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنی طاقت ظاہر کری۔[29]
موسیٰ مصر سے بنی اسرائیلیوں جبل موسیٰ کو لے گیا۔ جہاں خدا کی طرف سے موسیٰ کو دس احکام موصول ہوئے۔ جو پتھر کی دو ٹیبلٹس پر کنندہ تھے۔ تاہم موسیٰ جب ایک لمبے عرصے تک پہاڑ سے واپس نہیں آئے تو کچھ لوگ سمجھے کے وہ فوت ہو گئے، اس لیے ان لوگوں نے ایک سنہری بچھڑا کی مورتی تیار کی اور اس کی پوجا، اس طرح انھوں نے موسیٰ اور خدا کی نافرمانی کری جس کی وجہ سے موسیٰ اور خدا غصے میں آ گئے موسیٰ غصے پر قابو نہ رکھ پائے انھوں نے لوحوں (ٹیبلٹ) کو توڑ دیا۔ اور بعد میں ان لوگوں کے خاتمہ کا حکم دیا جنھوں نے سنہری مورتی کی پوجا کری تھی۔ انھوں نے خدا کے دس احکامات کو دوبارہ ایک نئے لوحوں پر تحریر کیا۔
بعد میں کوہ سیناء پر، موسیٰ اور بزرگوں نے ایک عہد لیا۔ کہ اسرائیل یہواہ کی عوام ہوگی،یہواہ کی اطاعت اور یہواہ ان کے خدا ہوں گے۔ موسیٰ نے خدا کے قوانین کو اسرائیل تک پہنچایا۔ اور اپنے بھائی ہارون کے بیٹوں کو کہانت کے منسب پر فائز کیا۔
سیناء میں ان کے آخری عمل میں خدا نے موسیٰ مقدس خیمہ کے لیے ہدایات دیں ایک ایسی زیارت گاہ جن سے وہ اسرائیل سے میدان تیہ سفر کرسکیں۔[30]
موسیٰ نے خدا کے حکم کے موافق بارہ جاسوسوں کو روانہ کیا تھا تاکہ ملک کنعان کا حال دریافت کریں اور اُن بارہ افراد (جاسوسوں) سے موسیٰ نے کہا کہ” تم ادھر(کنعان) جنوب کی طرف جاکر پہاڑوں میں چلے جانا۔ اور دیکھنا کہ وہ ملک کیسا ہے اور جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ کیسے ہیں۔ زورآور ہیں یا کمزور اور تھوڑے سی مقدار میں ہیں یا بہت۔ اور جس ملک میں وہ آباد ہیں وہ کیسا ہے۔ اچھا ہے یا برا؟ اور جن شہروں میں وہ رہتے ہیں وہ کَیسے ہیں؟۔ آیا وہ خیموں میں رہتے ہیں یا قلعوں میں۔ اور وہاں کی زمین کیسی ہے زرخیز ہے یا بنجر اور اس میں دریافت ہیں یا نہیں۔ تمھاری ہمت بندھی رہے اور تم اُس ملک کا کچھ پھل لیتے آنا“ کیونکہ یہ موسم انگور کی پہلی فصل کا تھا تو انھیں موسیٰ نے حکم دیا تھا کہ انگور کا ایک گُھچا وہاں سے توڑ کر لانا۔ اور یہ بارہ لوگ چالیس دن کے بعد اُس ملک کا حال دریافت کرکے لوٹے جو ملک انھوں نے دریافت کیا تھا وہ نقب یا اس کے آس پاس کا علاقہ تھا اور نے انھوں نے موسیٰ کو جواب دیا کہ ”وہاں کے لوگ بہت زورآور ہیں خُداوند کی تمام نعمتیں وہاں موجود ہیں“۔ موسیٰ نے کہا ”ہم ان پر ایک دم حملہ کریں گے“ انھوں نے گھبراتے ہوئے جواب دیا ”ہم ان سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زورآور ہیں اور ان کے شہر بڑے بڑے اور فصیلدار ہیں۔ اور ہم ایک ایسے ملک سے گذرے جو اپنے باشندوں کو کھا جاتا ہے۔ اور ہم نے بنی عناق کو بھی وہاں دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔“لیکن تمام جاسوس افراد چیخنے لگے کہ ”ہم ان سے جنگ نہیں کرسکتے۔ ہائے کاش مصر میں ہی موت آجائے! یا کاش اِس بیابان ہی میں مرتے! “۔ تب مُوسٰی اور ہارون بنی اسرائیل کی ساری جماعت (جاسوس) کے سامنے اوندھے منہ ہو گئے اور یشوع ابن نون اور کالب ابن یفنہ جو اُس ملک کا حال دریافت کرنے والوں میں سے تھے اپنے اپنے کپڑے پھاڑ کر۔ بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہنے لگے کہ ”وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اُس میں سے گُذرے نہایت اچھا ملک ہے۔ اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم اُس مُلک میں پہنچائے گا اور وہی مُلک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ہم کو دے گا۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو۔ وہ تو ہماری خوراک ہیں۔ ان کی پناہ اُن کے سر پر سے جاتی رہی ہے اور ہمارے ساتھ خُداوند ہے۔ سو ان کا خوف نہ کرو“[31]
جب چودہ سال گذر گئے تو موسیٰ بنی اسرائیلیوں کو بحیرہ مردار کے مشرق کے ارد گرد کے علاقے ادوم اور موآب لے گئے۔ جہاں وہ لوگ بت پرستی کے فتنہ سے بچ گئے۔ جہاں خدا نے ان کو ایک پیغمبر کے ذریعے بلعم برکت بخشی۔ کتاب گنتی 27:13 کے مطابق موسیٰ کو خدا نے دوبار کہا تھا کہ میدان تیہ پہنچنے سے پہلے اس کا موت واقع ہو جائے گی۔
دریائے اردن کے کنارے موسیٰ نے بنی اسرائیل کے قبائل کو جمع کیا۔ جہاں انھوں نے اگلا نبی یشوع کو مقرر کیا۔ موسیٰ موآب کی نچلی زمین سے جبل نیبو ڑ پر گئے جو یریحو کے پار پسگہ کی چوٹی پر تھا۔ خداوند نے اسے جِلعاد سے دان تک کی ساری زمین دکھلائی۔ خداوند نے اسے سارا نفتالی جو افرا ئیم اور منّسی کا تھا دکھایا۔ اس نے بحر قلزم تک یہوداہ کی سرزمین دکھا ئی۔ خداوند نے موسیٰ کو کھجور کے درختوں کے شہر ضغرسے یریحو تک پھیلی وادی اور نیگیو دکھا یا۔ خداوند نے موسیٰ سے کہا، ”یہ وہ ملک ہے جس کا میں نے ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے وعدہ کیا تھا، ’میں اس ملک کو تمہا ری نسلوں کو دوں گا۔ میں نے تمھیں اس ملک کو دکھا یا لیکن تم وہاں جا نہیں سکتے۔“ پھر موسیٰ موآب پر موسیٰ انتقال کر گئے۔ عہد نامہ جدید کی کتاب یہوداہ 1:9 کے مطابق موسیٰ کی موت کے بعد میکائیل اور شیطان نے موسیٰ کی لاش پر بحث کری تھی موسیٰ کی لاش کو کون رکھے گا۔
اسرائیل کے شارع
ترمیمموسیٰ کا "اسرائیل کے شارع" کے طور پر آج یہودیوں میں احترام کیا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے کئی خدا کے احکامات عام بندوں تک پہنچائے۔(خروج 20:19–23:33) اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے خدا کے دس احکام بتائے۔ پوری کتاب احبار موسیٰ کی دوسی شریعت پر مشتمل ہے۔ موسیٰ کو روایتی طور پر کتاب پیدائش اور چار کتابوں کا مصنف سمجھا جاتا ہے یہ سب ایک ساتھ تورات پر مشتمل ہیں۔ جو عبرانی بائبل کا پہلا اور سب سے زیادہ قابل احترام حصہ ہے۔[32]
تاریخ
ترمیمعلما کرام نے اتفاق رائے کی ہے کہ موسیٰ تاریخی ہی نہیں بلکہ ایک افسانوی شخصیت بهی تھے۔[33] تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بنی اسرائیل کی سرزمین انبیا کرام کا مسکن رہی ہے۔ تقریباً تمام پیغمبروں کو نبوت وہیں ملی۔ موسیٰ کے زمانے میں خدا وند کا سرزمین اسرائیل پر خاص کرم ہوا کرتا تھا مگر جب ان کی قوم نے غداری و سرکشی کی تو ان پر بدترین عذاب مسلط کردیے گئے اور وفاداری کی صورت میں ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دیے گئے۔ تاریخ میں ہے کہ موسیٰ نے نہ صرف بنی اسرائیلیوں کو فرعون سے نجات دلائی، بلکہ صحرا میں ان کے کھانے پینے اور ان پر سائے کے لیے غیر معمولی انتظامات بھی کیے۔ تاہم جب موسیٰ کوہِ سیناء پر گئے اور ان کی غیر حاضری میں بنی اسرائیل سنہری بچھڑے کو خدا بنا بیٹھے تو انھیں اس جرم پر شدید عذاب دیا گیا ان تمام مجرموں کو ان کے ہم قبیلہ اور خاندان کے لوگوں نے قتل کیا۔ اسی طرح جب بنی اسرائیل نے جہاد پر جانے کے موسیٰ کے حکم کے معاملے میں بزدلی دکھائی تو فلسطین کی زمین چالیس سال کے لیے ان پر حرام کر کے صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑدیا گیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق موسیٰ کے جانشین یوشع بن نون بن نون ہوئے۔موریس بوکائلے کی تحقیق کے مطابق موسیٰ کے دور میں بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔
قرآن مجید و بائبل میں موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور وہ بالآخر بحیرہ احمر میں غرق ہوا۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا اندازہً زمانہ حکومت 1292–1225 ق۔م تک رہا۔ اور دوسرا فرعون منفتاح تھا جو رعمسیس دوم کا بیٹا تھا اور اپنے باپ کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے موسیٰ کی تاریخ وفات 1272 ق۔ م ہے۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کا بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔[34]
ہیلینیائی ادب میں
ترمیمیہودیوں کے بارے میں غیر بائبل تحریروں کا سب سے پہلے آغاز 323 - 146 قبل مسیح کے ہیلینیائی دور میں ہوا۔ جس میں موسیٰ کے کردار کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ شمویل لکھتے ہیں کہ ”اس ادب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ عام طور پر یہ مشرقی عوام اور بعض مخصوص گروہوں نے اس ادب کو برقرار رکھا جو اعلیٰ اعزاز ہے۔“[35]
مزید یہودی رومی یا یہودی ہیلینیائی مورخین آرتپنس، یپولمس، یو سیفس اور فیلون اور کچھ غیر یہودی مؤرخین ہیکاتیس (جس تذکرائے موسیٰ کو دیو دور سیسلی نے بیان کیا)، الیگزینڈر پولیھسٹور، منیتو، اپیون، چایریموں اسکندریہ، تاسیتس اور پور فیری نے بھی موسیٰ کا تذکرہ کیا ہے۔[36]
موسیٰ دوسرے مذہبی متون میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ مشنی (200 ع۔ز)، مدراش، (200–1200 ع۔ز)،[37] اور قرآن میں ۔(610–53)
ہیکاتیس کا بیان
ترمیمیونانی ادب میں سب سے قدیم ترین موسیٰ کا تذکرہ مصری تاریخ دان ہیکاتیس (چوتھی صدی قبل مسیح) کا ہے۔ موسیٰ کی ہیکاتیس کی وضاحت کے دو ذکر دیو دور سیسلی نے بیان کیے ہیں۔ جس میں مؤرخ آرتھر دروگے لکھتے ہیں کہ ”انھوں نے موسیٰ کو ایک دانا اور جرآت مند رہنما بتایا ہے جنھوں نے مصر کو چھوڑا اور یہوایہ کو نوآباد کیا۔“[38] ہیکاتیس کے مطابق موسیٰ کی کئی کامیابیاں تھیں، جن میں موسیٰ نے کئی شہروں کی بنیاد رکھی تھی، ایک ہیکل تعمیر کیا اور شریعت کو نافذ کیا:
” | After the establishment of settled life in Egypt in early times, which took place, according to the mythical account, in the period of the gods and heroes, the first... to persuade the multitudes to use written laws was Mneves [Musa], a man not only great of soul but also in his life the most public-spirited of all lawgivers whose names are recorded.[39] | “ |
مؤرخ آرتھر دروگے نے نشان دہی کی ہے کہ ہیکاتیس کا یہ بیان یپولمس کے بیان سے مشابہت رکھتا ہے۔ جو یپولمس نے بعد میں کہا تھا۔[39]
آرتپنس کا بیان
ترمیمیہودی مؤرخ آرتپنس اسکندریہ (دوسری صدی قبل مسیح) نے موسیٰ کو ایک تہذیبی مجاہد تصور کیا ہے اور وہ فروعونی سرزمین پر اجنبی تھا۔الٰہیات کار جان برکلے کے مطابق، آرتپنس کا موسیٰ واضح طور پر یہودیوں کے مقدر تھے۔[40]
” | Jealousy of Moses'[Musa] excellent qualities induced Chenephres to send him with unskilled troops on a military expedition to Ethiopia, where he won great victories. After having built the city of Hermopolis, he taught the people the value of the ibis as a protection against the serpents, making the bird the sacred guardian spirit of the city; then he introduced circumcision. After his return to Memphis, Moses taught the people the value of oxen for agriculture, and the consecration of the same by Moses gave rise to the cult of Apis. Finally, after having escaped another plot by killing the assailant sent by the king, Moses fled to Arabia, where he married the daughter of Raguel [Jethro], the ruler of the district.[41] | “ |
اسٹرابو کا بیان
ترمیماسٹرابو (24 ع۔ز) ایک یونانی مؤرخ، فلسفی اور جغرافیہ دان تھا۔ اس نے اپنی جغرافیائی علمی دائرۃ المعارف میں موسیٰ کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بیان کے مطابق موسیٰ ایک مصری تھا۔ جو اپنے ملک کی صورت حال دیکھ کر افسردہ ہو گیا تھا۔ اور اس طرح کئی پیروکاروں کو متوجہ کیا جو دیوتاؤں کا احترام کرتے تھے۔ مثلاً اسٹرابو لکھتے ہیں کہ موسیٰ الوہیت کی تصویروں کے مخالف تھے۔ جو انسان یا جانوروں کی شکل میں تھے۔ اور اس بات کے قائل تھے کہ الوہیت کا کوئی وجود ہوتا ہے جس کی ہر شے پر قدرت ہے – زمین اور سمندر:[42]
” |
35. An Egyptian priest named Moses, who possessed a portion of the country called the Lower Egypt, being dissatisfied with the established institutions there, left it and came to Judaea with a large body of people who worshipped the Divinity. He declared and taught that the Egyptians and Africans entertained erroneous sentiments, in representing the Divinity under the likeness of wild beasts and cattle of the field; that the Greeks also were in error in making images of their gods after the human form. For God [said he] may be this one thing which encompasses us all, land and sea, which we call heaven, or the universe, or the nature of things.... 36. By such doctrine Moses persuaded a large body of right-minded persons to accompany him to the place where Jerusalem now stands....[43] |
“ |
تاسیتس کا بیان
ترمیمرومی مؤرخ تاسیتس (120–56 ع۔ز) نے موسیٰ سے متعلق بیان کیا ہے کہ یہودی مذہب توحیدی تھا اور بغیر کسی واضع تصویر کے۔ ان کا اصل کام تواریخ میں انھوں نے فلسفہ یہودی کو بیان کیا ہے، جہاں، آرتھر مرفی کے مطابق، یہودیوں کی ایک خدا کی عبادت کے نتیجہ میں ”مظاہر پرست اسطوریات پیچھے رہ گئے۔“[44] تاسیتس کے بیان کے مطابق،
” | A motley crowd was thus collected and abandoned in the desert. While all the other outcasts lay idly lamenting, one of them, named Moses[Musa], advised them not to look for help to gods or men, since both had deserted them, but to trust rather in themselves, and accept as divine the guidance of the first being, by whose aid they should get out of their present plight.[45] | “ |
اس میں بیان کیا گیا ہے موسیٰ اور یہودی صرف چھ دن تک صحرا میں بھٹکتے رہے۔ اور ساتویں دن ارض مقدسہ میں پہنچے۔[45]
لونگینس کا بیان
ترمیملونگینس زیادہ تر سپتواجنتا (یونانی بائبل ترجمہ) سے متاثر تھے، جنھوں نے مشہور تنقیدی کتاب آن دی سبلائن تحریر کی۔[46] انھوں نے کتاب پیدائش کا ایک اقتباس میں لکھا ہے ”اس طرز کو جو خالص اور عظیم ہونے کے لیے مناسب طریقے سے الوہیت کی نوعیت پیش کرتا ہے“، انھوں نے موسیٰ کا نام نہیں لیا مگر 'الوہیت کی نوعیت پیش کرنے والے' کا ذکر کیا ہے جو مندرجہ بالا اسٹرابو کے بیان کے مطابق موسیٰ ہیں جو الوہیت کی نوعیت عظیم بتاتے تھے۔ اور وہ ایک شارع تھے۔[47]
یو سیفس کا بیان
ترمیمفلا ویس یو سیفس (37ء - 100ء) نے یہودیوں کی قدیمت (Antiquities of the Jews) میں موسیٰ کا ذکر کیا ہے، مثلاً جلد نمبر آٹھ باب چہارم میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ ہیکل سلیمان جب نیا نیا بنایا گیا تھا تو تابوت سکینہ کو سب سے پہلے اس ہیکل میں منتقل کیا گیا تھا:
” | When King Solomon had finished these works, these large and beautiful buildings, and had laid up his donations in the temple, and all this in the interval of seven years, and had given a demonstration of his riches and alacrity therein; ...he also wrote to the rulers and elders of the Hebrews, and ordered all the people to gather themselves together to Jerusalem, both to see the temple which he had built, and to remove the ark of God into it; and when this invitation of the whole body of the people to come to Jerusalem was everywhere carried abroad, ...The Feast of Tabernacles happened to fall at the same time, which was kept by the Hebrews as a most holy and most eminent feast. So they carried the ark and the tabernacle which Moses had pitched, and all the vessels that were for ministration to the sacrifices of God, and removed them to the temple. ...Now the ark contained nothing else but those two tables of stone that preserved the ten commandments, which God spake to Moses in Mount Sinai, and which were engraved upon them...[48] | “ |
فیلڈ مین کے مطابق، یو سیفس نے موسیٰ کی ”حکمت، جرات، مزاج اور انصاف کے دلائل فضیلت کے قبضے کو خاص طور پر منسلک کیا ہے۔“ اس میں وہ تقویٰ بھی شامل ہے جس میں ایک اضافی فضیلت ہے۔ اس کے علاوہ، انھوں نے "رشوت کے رشتے سے بچنے کے لیے موسیٰ کی خواہش پر زور دیا ہے". افلاطون کے فلسفی بادشاہ کی طرح، موسیٰ کو معلم کے طور پر بَرتَری حاصل ہے۔[49]
نیومنیس کا بیان
ترمیمنیومنیس (Numenius)، یونانی فلسفی جو شام میں افامیا کے آبائی باشندے تھے، انھوں نے دوسری صدی عیسوی کے آخری نصف کے دوران موسیٰ کے مطالق لکھا۔ تاریخ دان کینیتھ گوٹھری لکھتے ہیں "نیومنیس شاید واحد یونانی فلسفی ہے جس نے واضح طور پر موسیٰ، نبیوں اور یسوع کی زندگی کا مطالعہ کیا۔۔۔"[50]کینیتھ گوٹھری نے نیومنیس کا پس نظر بیان کیا ہے:
” | Numenius was a man of the world; he was not limited to Greek and Egyptian mysteries, but talked familiarly of the myths of Brahmins and Magi. It is however his knowledge and use of the Hebrew scriptures which distinguished him from other Greek philosophers. He refers to Moses[Musa] simply as "the prophet", exactly as for him Homer is the poet. Plato is described as a Greek Moses.[51] | “ |
جسٹن شہید کا بیان
ترمیمدیگر ماہرین کے مطابق مسیحیت کے سینٹ اور مذہبی فلسفی جسٹن شہید (103ء-165ء) نے نیومنیس کی طرح کا نتیجہ اخذ کیا ہے۔ پال بلیکہم (Paul Blackham) نے نوٹ کیا ہے کہ جسٹن نے موسیٰ کو ”قابل اعتماد، عالم اور سچا" قرار دیا ہے کیونکہ وہ یونانی فلسفیوں سے زیادہ قدیم ہیں“[52]انھوں نے موسیٰ کا لکھا ہے کہ:
” | I will begin, then, with our first prophet and lawgiver, Moses[Musa]... that you may know that, of all your teachers, whether sages, poets, historians, philosophers, or lawgivers, by far the oldest, as the Greek histories show us, was Moses, who was our first religious teacher.[52] | “ |
ابراہیمی مذاہب میں
ترمیمیہودیت
ترمیمموسیٰ کی زیادہ تر معلومات بائبل کی خروج، احبار، گنتی اور استثناء میں ملتی ہیں۔[53]اکثریتی علما نے ان کتابوں کی تالیف پر غور کیا ہے کہ یہ کتابیں فارسی دور میں لکھی گئی ہیں،( 538-332 قبل مسیح)، لیکن یہ کتابیں ابتدائی تحریری اور زبانی روایات پر مبنی ہے۔[15][54] یہودی اسفار محرفہ میں موسیٰ کے متعلق کہانیاں اور اضافی معلومات موجود ہیں اور ربانی تفسیر کے طرز تحریر کو مدراش کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہودی زبانی قانون کی ابتدائی تحریروں میں، مشنی اور تلمود مشہور ہیں۔ یہودی روایات میں موسیٰ کے کئی نام مذکور ہیں۔ مدراش نے موسیٰ کو سات بائبل کی شخصیات میں سے ایک کے طور پر شناخت کیا ہے جن کو مختلف ناموں سے لکھا گیا تھا۔[55] موسیٰ کے مختلف ناموں میں: یقوتی ایل (والدہ یوکابد کی وجہ سے )، حِبر (والد عمران [عمرام] کی وجہ سے )، یرد (بہن مریم کی وجہ سے )، آوی زنوح (بھائی ہارون کی وجہ سے )، آوی جدور (قہات کی وجہ سے )، آوی سوکو (ان کو پالنے والی دایہ کی وجہ سے )، سمعیاہ بن نتنی ایل (بنی اسرائیل کی وجہ سے )۔[56] موسیٰ طوبیاہ (اول نام) اور لاوی (خاندانی نام) کے نام سے بھی معروف ہیں۔ (احبار ربانی 1:3)، ہمان،[57]مچوقیق (شارع)[58]اہل گؤاش(موسیٰ) (گنتی 12:3)[59] شامل ہیں۔
یہودی راسخ الاعتقاد موسیٰ کو موشی ریبنو لکھتے ہیں یعنی `Eved HaShem, Avi haNeviim zya"a: ہمارے رہنما موشی، خدا کے رسول، تمام نبیوں کے باپ (ان کی مہربان اہلیت ہمارا سایہ ہے آمین!)[60] اور یہودی ان کو عظیم پیغمبر سمجھتے ہیں۔[61][62]
موسیٰ جب انتقال کیے وہ 120 سال کے تھے۔(استثناء 34:7) اور آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ موسیٰ کی قبر کہاں ہے۔(استثناء 34:6)۔
120 سال کی عمر میں موسیٰ کی آنکھیں کمزور نہیں تھیں وہ اس وقت بھی طاقتور تھے۔ جو یہودیوں میں اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے کیونکہ ایک سو بیس سالا نوح کی اولاد کا ذکر کتاب پیدائش 6:3 میں ہوا۔
مسیحیت
ترمیمموسیٰ وہ شخصیت ہے جس کا دوسری شخصیات کے مقابلے میں عہد نامہ قدیم سے زیادہ عہد نامہ جدید میں ذکر ہوا ہے۔ مسیحیوں کے لیے موسیٰ اکثر خدا کے قانون کی ایک علامت ہے، جیسا کہ یسوع مسیح کی تعلیمات پر زور دیا گیا تھا۔ عہد نامہ جدید کے مصنفین اکثر موسیٰ کا یسوع مسیح کے اعمال والفاظ کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تاکہ یسوع مسیح کے مقصد کو بیان کرسکیں۔ اعمال 7:39-43، 51-53 میں یہودیوں کا موسیٰ کو رد کرنا اور سنہری بچھڑا کی عبادت کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ یہودیوں نے یسوع مسیح کے ساتھ کیا اور اپنی یہودیت کی روایت کو برقرار رکھا۔[63]
اسلام
ترمیمتمام پیغمبر کی نسبت قرآن میں موسیٰ کا واقعہ زیادہ آیا ہے۔ تیس سے زیادہ سورتوں میں موسیٰ و فرعون اور بنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سو مرتبہ سے زیادہ اشارہ ہوا ہے۔
بہائیت
ترمیمموسیٰ بہائی مذہب کے کلیدی پیغمبر ہیں۔ ان کو خدا کا رسول سمجھا جاتا ہے جو مستند دوسرے ادوار میں بھیجے گئے۔[64]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.biblereferenceguide.com/keywords/moses.html
- ↑ http://www.tandfonline.com/doi/pdf/10.1080/02572117.2009.10587324
- ^ ا ب پ ت مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.mgketer.org/
- ^ ا ب مصنف: یوسیفس — عنوان : Ἰουδαϊκὴ ἀρχαιολογία
- ↑ عنوان : The Holy Bible — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.mgketer.org/
- ↑ عنوان : Stuttering in history and culture — جلد: 59 — صفحہ: 81-87 — شمارہ: 2 — https://dx.doi.org/10.1016/S0165-5876(01)00474-8 — https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/11378182
- ↑ http://www.bbc.co.uk/ahistoryoftheworld/about/transcripts/episode43/
- ↑ باب: 4
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم (عہدِ عتیق)، استثناء 34:10
- ↑ Maimonides، 13 principles of faith، 7th principle.
- ↑ عہد نامہ قدیم(عہدِ عتیق)، خروج 1:10
- ^ ا ب Douglas K. Stuart (15 June 2006)۔ Exodus: An Exegetical and Theological Exposition of Holy Scripture۔ B&H Publishing Group۔ صفحہ: 110-113
- ↑ عہد نامہ قدیم(عہدِ عتیق)، خروج 4:10
- ↑ William G. Dever (2002)۔ en:What Did the Biblical Writers Know and When Did They Know It? (Paperback ایڈیشن)۔ Grand Rapids, Mich. [u.a.]: Eerdmans۔ صفحہ: 98–99۔ ISBN 9780802821263
- ^ ا ب Finkelstein, I., Silberman, NA., The Bible Unearthed: Archaeology's New Vision of Ancient Israel and the Origin of Its Sacred Texts, p.68
- ↑ en:Seder Olam Rabbah[مکمل حوالہ درکار]
- ↑ Jerome's Chronicon (4th century) gives 1592 for the birth of Moses
- ↑ The 17th-century en:Ussher chronology calculates 1571 BC (Annals of the World, 1658 paragraph 164)
- ↑ Christopher B. Hays, Hidden Riches: A Sourcebook for the Comparative Study of the Hebrew Bible and Ancient Near East، Presbyterian Publishing Corp, 2014 p. 116.
- ↑ Naomi E. Pasachoff, Robert J. Littman, A Concise History of the Jewish People، Rowman & Littlefield, (1995) 2005 p.5.
- ↑ Lorena Miralles Maciá، "Judaizing a Gentile Biblical Character through Fictive Biographical Reports: The Case of Bityah, Pharaoh's Daughter, Moses' Mother, according to Rabbinic Interpretations"، in Constanza Cordoni, Gerhard Langer (eds.)، Narratology, Hermeneutics, and Midrash: Jewish, Christian, and Muslim Narratives from Late Antiquity through to Modern Times، Vandenhoeck & Ruprecht/University of Vienna Press, 2014 pp. 145–175.
- ↑ Rivka Ulmer, Egyptian Cultural Icons in Midrash، de gruyter 2009 p. 269.
- ↑ Franz V. Greifenhagen, Egypt on the Pentateuch's Ideological Map: Constructing Biblical Israel's Identity, Bloomsbury Publishing, 2003 pp.60ff. p.62 n.65. p.63.
- ↑ Benjamin Edidin Scolnic, If the Egyptians Drowned in the Red Sea where are Pharaoh's Chariots?: Exploring the Historical Dimension of the Bible, University Press of America 2005 p. 82.
- ↑ Jeffrey K. Salkin, Righteous Gentiles in the Hebrew Bible: Ancient Role Models for Sacred Relationships, Jewish Lights Publishing, 2008 pp.47 ff.، p.54.
- ↑ Maurice D. Harris Moses: A Stranger Among Us، Wipf and Stock Publishers, 2012 pp. 22–24
- ↑ بائبل: عہد نامہ قدیم(عہدِ عتیق)، خروج 2:10
- ↑ John McClintock، Strong James (1882)، "Mo'ses"، en:Cyclopaedia of Biblical, Theological and Ecclesiastical Literature، VI.— ME-NEV، New York: Harper & Brothers، صفحہ: 677–87.
- ↑ Ginzberg, Louis (1909). The Legends of the Jews Vol III : Chapter I (Translated by Henrietta Szold) Philadelphia: Jewish Publication Society.
- ↑ Ginzberg, Louis (1909). The Legends of the Jews Vol III : The Symbolical Significance of the Tabernacle (Translated by Henrietta Szold) Philadelphia: Jewish Publication Society.
- ↑ Ginzberg, Louis (1909). The Legends of the Jews Vol III : Ingratitude Punished (Translated by Henrietta Szold) Philadelphia: Jewish Publication Society.
- ↑ Hamilton 2011, p. xxv.
- ↑ en:William G. Dever 'What Remains of the House That Albright Built?,' in George Ernest Wright, Frank Moore Cross, Edward Fay Campbell, Floyd Vivian Filson (eds.) The Biblical Archaeologist, American Schools of Oriental Research, Scholars Press, Vol. 56, No 1, 2 March 1993 pp.25-35, p.33: 'the overwhelming scholarly consensus today is that Moses is a mythical figure.'
- ↑ تفسیر تفہیم القرآن، ابو الاعلی مودودی ،سورۃ الاعراف آیت 104 حاشیہ نمبر 85
- ↑ Shmuel 1976, p. 1102.
- ↑ Shmuel 1976, p. 1103.
- ↑ Reuven Hammer (1995)، The Classic Midrash: Tannaitic Commentaries on the Bible، Paulist Press، صفحہ: 15.
- ↑ 1989, p. 18.
- ^ ا ب Droge 1989, p. 18.
- ↑ Barclay, John M. G. Jews in the Mediterranean Diaspora: From Alexander to Trajan (323 BCE – 117 CE), University of California Press (1996) p. 130
- ↑ "Moses"۔ Jewish Encyclopedia۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2010
- ↑ Shmuel 1976, p. 1132.
- ↑ Strabo. The Geography, XVI 35, 36, Translated by H.C. Hamilton and W. Falconer, pp. 177–78,
- ↑ Tacitus, Cornelius. The works of Cornelius Tacitus: With an essay on his life and genius by Arthur Murphy, Thomas Wardle Publ. (1842) p. 499
- ^ ا ب Tacitus, Cornelius. Tacitus, The Histories, Volume 2, Book V. Chapters 5, 6 p. 208.
- ↑ Henry J. M. Day, Lucan and the Sublime: Power, Representation and Aesthetic Experience, Cambridge University Press, 2013 p.12.
- ↑ Shmuel 1976, p. 1140.
- ↑ Flavius Josephus (1854)، "IV"، The works: Comprising the Antiquities of the Jews، VIII، trans. by William Whiston، صفحہ: 254–55.
- ↑ Feldman 1998, p. 130.
- ↑ Guthrie 1917, p. 194.
- ↑ Guthrie 1917, p. 101.
- ^ ا ب Blackham 2005, p. 39.
- ↑ Van Seters 2004, p. 194.
- ↑ Jean-Louis Ska, Exegesis of the Pentateuch: Exegetical Studies and Basic Questions, Forschungen zum Alten Testament, Vol 66, Mohr Siebeck, 2009 p.260.
- ↑ Midrash Rabbah, Ki Thissa, XL. 3-3, Lehrman, p. 463
- ↑ Yalkut Shimoni, Shemot 166 to Chronicles I 4:18, 24:6; also see Vayikra Rabbah 1:3; Chasidah p.345
- ↑ Rashi to Bava Batra 15s, Chasidah p. 345
- ↑ Bava Batra 15a on Deuteronomy 33:21, Chasidah p. 345
- ↑ Rashi to Berachot 54a, Chasidah p. 345
- ↑ یہودی امواتی القابات.
- ↑ Ginzberg, Louis (1909). The Legends of the Jews Vol. III : Moses excels all pious men (Translated by Henrietta Szold) Philadelphia: Jewish Publication Society.
- ↑ "Judaism 101: Moses, Aaron and Miriam"۔ Jew FAQ۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2017
- ↑ William J. Larkin (1995)۔ Acts (IVP New Testament Commentary Series)۔ Intervarsity Press Academic۔ ISBN 978-0-8308-1805-1
- ↑ Historical Context of the Bábi and Bahá'í Faiths، Bahá'i.
مزید پڑھیے
ترمیم- Sholem Asch (1958)، Moses، New York: Putnam، ISBN 0-7426-9137-3.
- Jan Assmann (1997)، Moses the Egyptian: The Memory of Egypt in Western Monotheism، Harvard University Press، ISBN 0-674-58738-3.
- Peter Barenboim (2005)، Biblical Roots of Separation of Power، Moscow: Letny Sad، ISBN 5-94381-123-0.
- Hillel Barzel (1974)، "Moses: Tragedy and Sublimity"، $1 میں Kenneth RR Gros Louis، James S Ackerman، Thayer S Warshaw، Literary Interpretations of Biblical Narratives، Nashville: Abingdon Press، صفحہ: 120–40، ISBN 0-687-22131-5.
- Paul Blackham (2005)، "The Trinity in the Hebrew Scriptures"، $1 میں Paul Louis Metzger، Trinitarian Soundings in Systematic Theology (essay)، Continuum International.
- Martin Buber (1958)، Moses: The Revelation and the Covenant، New York: Harper.
- Orson Scott Card (1998)، Stone Tables، Deseret Book Co، ISBN 1-57345-115-0.
- Yishai Chasidah (1994)، "Moses"، Encyclopedia of Biblical Personalities: Anthologized from the Talmud, Midrash and Rabbinic Writings، Brooklyn: Shaar Press، صفحہ: 340–99.
- Joel Cohen (2003)، Moses: A Memoir، Mahwah, NJ: Paulist Press، ISBN 0-8091-0558-6.
- Winston Churchill (November 8, 1931)، "Moses"، Sunday Chronicle، National Churchill Museum، Thoughts, 205.
- David Daiches (1975)، Moses: The Man and his Vision، New York: Praeger، ISBN 0-275-33740-5.
- William G Dever (2002)، What Did the Biblical Writers Know and When Did They Know It?، William B. Eerdmans، ISBN 0-8028-2126-X.
- ——— (2006) [2003]، Who Were the Early Israelites, and Where Did They Come From?، Grand Rapids, MI: William B. Eerdmans
- Thomas B Dozeman (2009)، Commentary on Exodus، William B Eerdmans، ISBN 9780802826176
- Arthur J Droge (1989)، Homer or Moses?: Early Christian Interpretations of the History of Culture، Mohr Siebeck.
- Howard Fast (1958)، Moses, Prince of Egypt، New York: Crown.
- Bruce Feiler (2009)، America's Prophet: Moses and the American Story، William Morrow.
- Louis H Feldman (1998)، Josephus's Interpretation of the Bible، University of California Press.
- Israel Finkelstein، Neil Asher Silberman (2001)، The Bible Unearthed، New York: Free Press، ISBN 0-684-86912-8.
- ———، ——— (2001b)، The Bible Unearthed، New York: Simon & Schuster.
- Benjamin Franklin (1834)، مدیر: William Temple Franklin، Memoirs (ebook) ، 2، Philadelphia: McCarty & Davis.
- Sigmund Freud (1967)، Moses and Monotheism، New York: Vintage، ISBN 0-394-70014-7.
- Gregory of Nyssa (1978)، The Life of Moses، The Classics of Western Spirituality، Transl. Abraham J. Malherbe and Everett Ferguson. Preface by en:John Meyendorff، Paulist Press، ISBN 978-0-80912112-0. 208 pp.
- Kenneth Sylvan Guthrie (1917)، Numenius of Apamea: The Father of Neo-Platonism، George Bell & Sons
- Marek Halter (2005)، Zipporah, Wife of Moses، New York: Crown، ISBN 1-4000-5279-3.
- James K Hoffmeier (1996)، "Moses and the Exodus"، Israel in Egypt: The Evidence for the Authenticity of the Exodus Tradition، New York: Oxford University Press، صفحہ: 135–63.
- Victor Hamilton (2011)، Exodus: An Exegetical Commentary، Baker Books، ISBN 9781441240095.
- Joseph Holt Ingraham (2006) [New York: A.L. Burt, 1859]، The Pillar of Fire: Or Israel in Bondage (reprint)، Ann Arbor, MC: Scholarly Publishing Office, University of Michigan Library، ISBN 1-4255-6491-7.
- Annabel Keeler (2005)، "Moses from a Muslim Perspective"، $1 میں Norman Solomon، Richard Harries، Tim Winter، Abraham's Children: Jews, Christians, and Muslims in Conversation، T&T Clark، صفحہ: 55–66، ISBN 9780567081711.
- Kirsch, Jonathan. Moses: A Life.:New York: Ballantine, 1998. ISBN 0-345-41269-9.
- Kohn, Rebecca. Seven Days to the Sea: An Epic Novel of the Exodus. New York: Rugged Land, 2006. ISBN 1-59071-049-5.
- H Freedman، مدیر (1983)، Midrash Rabbah (10 volumes) ، Lehman, S.M. (translator)، London: The Soncino Press.
- Thomas Mann (1943)، "Thou Shalt Have No Other Gods Before Me"، The Ten Commandments، New York: Simon & Schuster، صفحہ: 3–70.
- Jon Meacham (2006)، American Gospel: God, the Founding Fathers, and the Making of a Nation، Random House.
- Kamal Salibi (1985)، "The Bible Came from Arabia"، Jonathan Cape، London.
- Samuel Sandmel (1973)، Alone Atop the Mountain، Garden City, NY: Doubleday، ISBN 0-385-03877-1.
- John Van Seters (2004)، "Moses"، $1 میں John Barton، The Biblical World، Taylor & Francis، ISBN 9780415350914
- ——— (1994)، The Life of Moses: The Yahwist as Historian in Exodus-Numbers، Peeters Publishers، ISBN 90-390-0112-X.
- Safrai Shmuel (1976)، مدیر: M Stern، The Jewish People in the First Century، Van Gorcum Fortress Press
- Jean Louis Ska (2009)، The Exegesis of the Pentateuch: Exegetical Studies and Basic Questions، Mohr Siebeck، صفحہ: 30–31, 260، ISBN 978-3-16-149905-0
- Huston Smith (1991)، The World's Religions، Harper Collins، ISBN 9780062508119
- Arthur Eustace Southon (1954) [London: Cassell & Co., 1937]، On Eagles' Wings (reprint)، New York: McGraw-Hill.
- K. van der Toorn، Bob Becking، Pieter Willem van der Horst (1999)، Dictionary of deities and demons in the Bible، ISBN 9780802824912.
- Elie Wiesel (1976)، "Moses: Portrait of a Leader"، Messengers of God: Biblical Portraits & Legends، New York: Random House، صفحہ: 174–210، ISBN 0-394-49740-6.
- Aaron Wildavsky (2005)، Moses as Political Leader، Jerusalem: Shalem Press، ISBN 965-7052-31-9.
- Dorothy Clarke Wilson (1949)، Prince of Egypt، Philadelphia: Westminster Press.
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر موسیٰ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
انگریزی ویکی اقتباس میں
موسیٰ سے متعلق اقتباسات موجود ہیں۔ |
انگریزی ویکی لغت پر لفظ
משה سے متعلق لغوی معنی موجود ہے۔ |
انگریزی ویکی ماخذ پر اس مضمون سے متعلق اصل متن موجود ہے: |
- The Geography, Book XVI, Chapter II The entire context of the cited chapter of Strabo's work
موسیٰ
| ||
ماقبل شریعت کا آغاز
|
شارع | مابعد |