عائشہ بنت معمر
عائشہ بنت حافظ معمر بن عبد الواحد بن فاخر عبشمیہ قرشیہ اصفہانیہ، کنیت: ام حبیبہ ہے۔ مشہور خاتون عالمہ، محدثہ اور حدیث کی راویہ ہیں۔ قبیلہ قریش کی شاخ عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب سے نسبی نسبت تھی، اسی لیے ان کی نسبت قرشیہ ہے۔ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں ایران کے اصفہان سے تعلق تھا۔ ان کے والد معمر بن عبد الواحد جو "ابن الفاخر" نام سے مشہور ہیں بڑے محدث اور حافظ حدیث تھے۔ ذہبی نے انھیں بتیسویں طبقہ میں شمار کیا ہے اور اسی طبقہ کے تحت اپنی مشہور تراجم کی کتاب سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے۔[1]
عائشہ بنت معمر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | عائشہ بنت مَعْمَر بن عبد الواحد بن فاخر |
کنیت | اُم حبیبہ |
لقب | بنت مَعْمَر |
والد | حافظ مَعْمَر بن عبد الواحد بن فاخر قُرشی |
رشتے دار | بھائی: داؤد بن معمر بن عبد الواحد بن فاخر قُرشی |
عملی زندگی | |
طبقہ | بتیسواں |
نسب | عبشمیہ قرشیہ |
اس سے روایت کرتے ہیں:
|
|
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمعائشہ بنت معمر کی پیدائش پانچویں صدی ہجری کی تیسری دہائی میں ایران میں واقع اصفہان میں ہوئی، ان کے والد معمر بن عبد الواحد بن فاخر عبشمی قرشی جو "ابن الفاخر" نام سے مشہور ہیں، حافظ حدیث اور اپنے زمانے کے کبار علما میں سے تھے، ان کے بھائی داؤد بن معمر بن عبد الواحد بن الفاخر قُرشی بھی کبار علما اور محدثین میں شمار ہوتے تھے۔ نیز پانچویں اور چھٹی ہجری میں فارس کا علاقہ خصوصا ما وراء النہر اور اصفہان علم حدیث اور فقہ کے علوم کا مرکز اور مرجع تھا۔ چنانچہ عائشہ بنت معمر کی پرورش اسی علما، محدثین، مصنفین اور حفاظ احادیث سے بھرے گھرانہ اور ماحول میں ہوئی۔[2]
اساتذہ
ترمیمعائشہ بنت معمر نے اپنے زمانے کے مشہور اساتذہ اور محدثین نے استفادہ کیا ہے، احادیث کی سماعت کی اور اجازت حاصل ہے۔ چند مشہور اساتذہ:
- معمر بن عبد الواحد (ابن الفاخر) ان کے والد تھے۔
- فاطمہ بنت عبد اللہ جوزدانیہ (عالمہ، محدثہ اور مسندۃ اصفہان تھیں)
- فاطمہ بنت محمد بن احمد بغدادی
- ابو القاسم زاہر بن طاہر بن محمد شحامی
- سعید بن ابی الرجاء صیرفی (ان سے "مسند ابی یعلیٰ موصلی" کی سماعت کی تھی۔
تلامذہ
ترمیمکچھ مشہور اور مایہ ناز تلامذہ یہ ہیں:
- ابو بکر بن نقطہ
- شیخ الضیاء
- تقی بن العز
- ابن ابی عمر
- ابن شیبان
- کمال عبد الرحیم
- فخر علی[1]
علما کی آرا
ترمیمامام ذہبی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب سیر اعلام النبلاء بتیسویں طبقہ میں ان کے بارے میں لکھا ہے، جس میں لکھا ہے: «عظیم شیخہ اور مسندہ (سند اور مرجع) تھیں»۔[1]
ان کے شاگرد ابو بکر بن نقطہ ان کے بارے میں کہتے ہیں: «ہم ان سے مسند ابی یعلیٰ موصلی کی سماعت کی ہے جس کو انھوں نے سعید بن ابی الرجاء صیرفی سے سنا تھا اور الفوائد کے کچھ اجزا کی بھی سماعت کی ہے، ان کا درس بہت مناسب اور ان کے والد محترم کے افادات پر مشتمل ہوتا تھا»۔[1][2]
وفات
ترمیمعائشہ بنت معمر کی وفات ربیع الثانی سنہ 607 ہجری میں اصفہان، ایران میں ہوئی اور وہیں مدفون ہوئیں۔ اسّی سال سے زائد عمر پائیں۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ بنت معمر - سير أعلام النبلاء للذهبي، إسلام ويب، اطلع عليه في 22 جمادى الأولى 1436 هـ۔ آرکائیو شدہ 15 جون 2016 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ عائشة بنت معمر بن عبد الواحد بن الفاخر أم حبيبة الأصبهانية - كتاب التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد لأبو بكر بن نقطة، المكتبة الشاملة، اطلع عليه في 22 جمادى الأولى 1436 هـ. آرکائیو شدہ 2 اپریل 2015 بذریعہ وے بیک مشین