عبد الستار گبول پاکستان کی نامور سیاسیتدان اور لیاری سے تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔

حالات زندگی ترمیم

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد انھوں نے عملی سیاست کاآغاز 1969ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ ذو الفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں اور پیپلز پارٹی کے با نی جیالوں میں سے تھے۔ گبول قبیلہ پچھلی کئی دہائیوں سے لیاری کی سیاست میں سرگرم رہا ہے۔ وہ دو مرتبہ لیاری سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ "لنکن اِن" (Lincoln Inn) سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پارٹی کے برسرِاِقتدار آنے پر وفاقی وزیرِ"محنت و افرادی قوت" (Labour & Man Power) اور وفاقی وزیرِ صحت(Health) کا قلم دان سنبھالا اور بھرپُور خدمات سر انجام دیں۔ اقوام متحدہ (United Nations)سمیت مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پرپاکستان کی نمائندگی کی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی برطرفی اور ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی نے اُن پر گہرا نفسیاتی اَثر چھوڑا۔ بعد میں پارٹی کے سینئر ساتھیوں کے ساتھ سنگین اِختلافات پر انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی کر لی۔ 23 جولائی 2006ء کو شدید عارضۂ قلب کے باعث وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اُن کو لیاری میں آبائی قبرستا ن’’میوہ شاہ‘‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔[1]

خراج عقیدت ترمیم

پہلی بار 1970ء میں عبد الستار گبول سے اُس وقت ملاقات ہوئی جب وہ کراچی میں حفیظ پیرزادہ کے ساتھ نئی قائم شدہ پیپلز پارٹی کے پہلے الیکشن کی مُہم چلا رہے تھے۔ اُس وقت میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ تین سال جب میں نے سندھ لیبر ڈیپارٹمنٹ میں عہدہ سنبھالا وہ وفاقی وزیر برائے محنت و افرادی قوت کے منصب پر کام کر رہے تھے۔ ایک مجسٹریٹ کے طور پر جب اُن سے پہلی بار ملا(جب وہ الیکشن مہم چلا رہے تھے) یا ایک سیکریٹری کے طور پر جب میں نے اُن کے ساتھ کام کیا، انتہائی پُر وقار اور غیر جانب دار پایا۔ مجھے ایک بھی وہ لمحہ یاد نہیں جب انھوں نے فرائضِ منصبی میں خلافِ قانون یا کسی دباؤ میں آ کے کوئی قدم اٹھایا ہو، چاہے آگے اُن کا پارٹی ممبر ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ وہ قانونی ماہر تھے، مگر کچھ ایسا ضرور تھا جس کی بنا پر وہ اپنی ابتدائی زندگی ہی میں منافقانہ سیاست سے بہت دُور اپنے آبائی علاقے لیاری میں رہنے لگے، آخرِ کار پچھلے اتوار خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے غریب لوگوں کی مدد کے جذبے سے اِس قدر سرشار تھے کہ انھوں نے بیرونی دنیا کو بھلا دیا اور دنیا نے بھی انھیں فراموش کر دیا۔ اُن کی وفات نے درحقیقت انھیں یاد رکھنے کے لیے موقع فراہم کیا ہے۔ غالباً بے انتہا کرپشن اور شورش زدہ سیاست نے انھیں تنہا رہنے پر مجبور کر دیا ہو مگر 35 سال قبل اُن کے ساتھ گزارے ہوئے کچھ وقت کی بِناء پر میں بلا خوف و تردید یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی اِس کا حصہ نہ بنتے۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. گبول قبیلہ کی نمایاں شخصیات صفحہ 346، ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)
  2. ڈان نیوز، 25 جولائی 2006 تحریر: کنور ادریس ،کراچی

دیگر ماخذ ترمیم

  • کیر تھرائی گبول، صفحہ 113 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)۔
  • گبول قبیيلي جو تاريخي جائزو (2011) محقق: عبد الحميد گبول۔

بیرونی روابط ترمیم