عبداللہ الحسینی عرف حاجی بہادر
خیبر پختونخوا کے مشہور شہر کوہاٹ میں سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ کے معروف بزرگ حاجی بہادرمدفون ہیں۔
عبداللہ الحسینی عرف حاجی بہادر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 31 جولائی 1581 (442 سال) |
درستی - ترمیم ![]() |
نامترميم
ان کا نام سیدعبد اللہ والد کا نام سید سلطان محمد لیکن شہرت حاجی بہادر کوہاٹی سے ہے۔
ولادتترميم
حاجی بہادر کی ولادت 16 رجب989 ہجری 1581ء میں ہندوستان کے مشہور شہر آگرہ میں ہوئی۔
نسبترميم
سید عبد اللہ بن سلطان محمد میر سرور بن سلطان میر اکبر بن سلطان میرانشاہ بن سلطان سبحان بن سلطان محمد زبیر بن سلطان میر کمال بن سلطان میر جمال بن سلطان ابی فضل بن سلطان سراج الدین بن سلطان بہاؤالدین بن سلطان عبد الرحمن بن محمد عمران بن سلطان شعبان بن سلطان محمد زاہد بن سلطان امیر احمد بن عبد العزیز بن محمد ابراہیم بن حسن عسکری[1]
آدم بنوری کی خدمت میںترميم
علوم رسمیہ کی تکمیل کے بعد جب آپ کی عمر 17 سال تھی آپ کے دل میں سید آدم بنوری کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا انہیں پتہ چلا کہ میر محمد کلاں ملکری جو سید آدم بنوری کے خلیفہ تھے اپنے مرشد کی خدمت میں جا رہے ہیں تو اپنی والدہ سے عرض کیاکہ میں بھی میر محمد کے ساتھ جانا چاہتا ہوں اجازت و دعا دیں جب سیدآدم بنوری کی خدمت مین پہنچے تو تو انہوں نے میر محمد کلاں سے پوچھا یہ بچہ کون ہے بڑا سعادت مند معلوم ہوتا ہے تو بتایا کہ اس کا نام عبد اللہ ہے اور آپ کی زیارت کی بہت تمنا رکھتا ہے تو سید آدم بنوری نے خوش ہو کر فرمایا
” | یہ بہادر ہے اور تو اس بہادر کی رفاقت اور حمایت میں آیا ہے اور یہ شیر ہے اور جو کچھ میرے سینے میں علوم ظاہری و باطنی ہیں یہ کھینچ کر لے جائیگا اور یہ ہمارے خلفاء میں سے ہے | “ |
اس کے بعد سید آدم بنوری اٹھے اور اپنے سینے سے لگا کر یہ دعا مانگی
” | الٰہی ہمارے اس فرزند کو منزل مقصود تک پہنچا اور اس بہادر کو درجات و مقامات اور معانی و اسرار کی دولت کے حصول سے غنی کر دے | “ |
بیعتترميم
بیعت سید آدم بنوری سے کی اور 11 سال ان کی خدمت میں رہے بعد میں خلافت بھی انہی سے عطا ہوئی۔
کوہاٹ میں آمدترميم
اپنے پیرو مرشد کی معیت میں حج کیا اور واپسی پر کوہاٹ میں رشد وہدایت کی شمع روشن کی جس سے افغان قبائل کو اسلام کی حقیقی روشنی میسر آئی۔ خدمت دین میں اخلاص کی وجہ سے لوگ آپ کو "خدا بین"کے لقب سے یاد کرتے۔ بوجود اس کے ک اورنگزیب عالمگیر نے دہلی کی دعوت لیکن آپ نے کوہاٹ کو چھوڑنا گوارا نہ کیا
وفاتترميم
حاجی بہادر نے دوران میں سفرماہ رجب 1099 ہجری (1687ء) بڈا خیل میں وفات پائی دوسرے دن کوہاٹ میں جنازہ ہوا اور کوہاٹ میں ہی دفن ہوئے۔
مریدین و خلفاءترميم
مریدین کی تعداد لاکھوں میں تھی جبکہ خلفاء میں نور محمد مدقق اور اخوندنعیم کانہ ننگرہاری اور خواجہ مامون شاہ منصورہ یوسف زئی مشہور ہیں۔[2]