عبد الرحمن شیخی زادہ

قاضی عسکر روم ایلی و عالم دین

عبد الرحمن بن محمد شيخی زاده (وفات :1078ھ - 1667ء) پورانام عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو شيخی زاده، یہ یحییٰ آفندی[1] کے شاگرد تھے اورشیخ الاسلام ہوجا عبدالرحیم آفندی کے داماد ہونے پرشیخی زادہ کہلاتے ہیں[1]۔ ان کا تعلق گَیلی پولی تركی سے تھا۔ مذہب حنفی کے شیخ الاسلام فقیہ مفسر جو روم ایلی میں (قاضی العسکر) فوج کے قاضی رہے۔[3]

عبدالرحمن شیخی زادہ
داماد آفندی
پیدائش گیلی پولی، سلطنت عثمانیہ (موجودہ ترکی)
وفات 1667ء[1]
نسب عبد الرحمٰن بن محمد بن سلیمان[2]


لقب داماد کی وجہ

ترمیم

یہ عبد الرحمان کی طالبعلمی کے اُس دور کا واقعہ ہے جب ان کے والدین فوت ہو چکے تھے ،یہ دو کمروں کے ایک کچے مکان میں ادرنہ قاپی کے مضافات میں رہائش پزیر تھے۔ایک روز یہ طوفانی رات کے وقت موم بتی کی روشنی میں پڑھنے میں مصروف تھے،کہ اچانک ان کے دروازے پر دستک ہوئی۔انھوں نے حیرانی کے عالم میں دروازہ کھولا(کہ اس وقت کون آسکتا ہے؟)۔ تو ان کے سامنے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کھڑی تھی۔لڑکی نے کہا (جناب! میں طوفان کی وجہ سے راستہ کھو کر ادھر نکل آئی ہوں۔میں نے ادھر روشنی دیکھی تو کسی پناہ کی تلاش میں ادھر نکل آئی براہِ مہربانی مجھے رات گزارنے کے لیے جگہ فراہم کر دیں۔کیا آپ مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دیتے ہیں باہر بہت سخت سردی کا عالم ہے۔)نوجوان طالب علم نے کہا ٹھیک ہے آپ اس علاحدہ کمرے میں رات گزار لیں۔یہ کہہ کر وہ دروازہ بند کردیتا ہے۔وہ دوبارہ سے موم بتی کی روشنی میں پڑھنے کا سلسلہ شروع کردیتا ہے۔کچھ لمحے بعد، لڑکی متجسس ہو کر دروازے کی درز سے شرمیلی اور باحیا نگاہوں سے جھانکتی ہے (کہ یہ نوجوان کیا کررہاہے؟) تو اسے نظر آتا ہے کہ نوجوان کچھ لمحے بعد موم بتی کو اپنے قریب کرتا ہے اوراپنی انگلی کو کچھ دیر اس کے شعلہ پر رکھتا ہے اور پھر پڑھائی شروع کردیتا ہے۔صبح تک اس کا یہی معمول رہا۔

دن چڑھتے ہی لڑکی اپنے گھر واپس چلی جاتی ہے۔وہ لڑکی شیخ الاسلام کی بیٹی تھی، اس کا خاندان سخت پریشان ہوتا ہے کہ وہ کہاں چلی گئی تھی تو جواباً سارا ماجرا کہہ ڈالتی ہے کہ کس طرح ایک مدرسے کے طالب علم نے طوفان میں اس کی مدد کی لیکن خصوصاً وہ اس بات کا ذکر کرتی ہے کہ کس طرح وہ شخص صبح تک گاہے بگاہے اپنی انگلی کو موم بتی میں جلاتا رہا۔شیخ الاسلام اسے محل بلاتا ہے اور اس سے رات بھر اپنی انگلی موم بتی سے جلانے کی وجہ پوچھتا ہے تویہ یوسف سیرت نوجواں جواباً کہتا ہے:

میں ایک تنہا شخص کو طوفان میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا جبکہ اس نے پناہ کے لئے میرا دروازہ کھٹکھٹایا ہو لہٰذا میں نے اسے اپنی جھونپڑی میں پناہ دے دی اور پڑھائی میں مصروف ہوگیا۔ پڑھائی کے دوران جب شیطان مجھے ورغلانے اور میرے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا تو میں اپنی انگلی کچھ دیر کیلئے شعلے میں رکھ دیتا اور اپنے ضمیر کو جہنم کی آگ یاد دلاتے ہوئے کہتا: اگر آج تم سے کوئی بد فعلی سرزد ہوئی تو کل مانندِ انگشت تمہارا پورا جسم دوزخ میں جلے گا۔ اسی سوچ نے مجھے کسی بھی بد فعل کے سرزد کرنے سے محفوظ رکھا۔

شیخ الاسلام (وزیر) ان کے تقویٰ سے بہت متاثر ہوئے اور اپنا داماد بننے کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔اس کے بعد انھوں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور ایک وقت آیا جب ان کا شمار اپنے وقت کے مایہ ناز علما میں ہونے لگا۔اس واقعہ کی وجہ سے وہ اپنے نام کی بجائے داماد آفندی کے نام سے مشہور ہوئے۔[4]

نمازِ جنازہ کے بارے میں مؤقف

ترمیم

علامہ عبد الرحمن بن محمد شیخی زادہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ترجمہ:[5][6]

اگر میت، امام اور کچھ افراد مسجد سے باہر ہوں اور باقی افراد مسجد میں ہوں تو جیسے ہماری جامع مساجد میں معمول ہے تو ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں مسجد میں نمازِ جنازہ مکروہ نہیں ہے۔

اہم تصنیفات

ترمیم
  • مجمع الأنہر في شرح ملتقى الأبحر[1] [4]
  • نظم الفرائض، حاشیہ على أنوار التنزيل للبيضاوی

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت تحسین(ترکی:TAHSİN) اوزکان(ترکی:ÖZCAN)۔ "شیخی زادہ(ترکی:ŞEYHÎZÂDE)"۔ اسلامی انسائیکلو پیڈیا(ترکی:islamansiklopedisi)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2021 
  2. "عبد الرحمن شيخي زاده"۔ المکتبۃ الشاملہ 
  3. معجم المؤلفين 5/175
  4. ^ ا ب "مجمع الأنہر في شرح ملتقى الأبحر عبدالرحمن گیلی پولی شیخی زادہ(Mecmau`l-Enhur fî Şerhi Mülteka`l-Ebhur Abdurrahman Gelibolulu Şeyhizade)"۔ antikkuntik۔ 17 مئی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2021 
  5. مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر۔ 1۔ صفحہ: 184 
  6. مفتی منیب الرحمن۔ "میّت بیرونِ مسجد رکھ کر مسجد میں نمازِجنازہ میں شریک ہونا"۔ روزنامہ جنگ