عبد الرزاق اچکزئی
عبد الرزاق (پشتو: عبد الرازق اچکزئی ؛ پیدائش: 1979ء، ریگ، قندھار – قتل: 18 اکتوبر 2018ء، قندھار) افغانستان کی فوج کا حصہ اور صوبہ قندھار کی پولیس کا سربراہ تھا۔ جو پاکستان کا شدید ترین مخالف شمار کیا جاتا تھا۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر شور بہت کرتا تھا لیکن آخر میں طالبان کے ایک فوجی اہلکار نے اس کو کندھارمیں قتل کر دیا۔ افغان میڈیا کے مطابق کمانڈر رازق پاکستان اور افغانستان کے درمیان متنازع ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کے بھی سخت مخالف تھے۔کمانڈر رازق چمن کے اصغرعشے زئی اور کیپٹن عبد الخالق کے دوست تھے۔اصغر خان عشے زئی کے والد حاجی جیلانی خان کو بھی چمن میں نامعلوم لوگوں نے قتل کر دیا بعد اس کا پاکستانی ایجنسیوں پر لگایا گیا۔کیپٹن عبد الخالق کے بھائی ڈاکٹر صادق پر بھیقاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ اس میں بچ گئے۔ رازق کمانڈر کو بارہا طالبان کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملتی رہیں اور بالآخر 18 اکتوبر 2018ء کو کندھار کے گورنر ھاؤس میں نورزئی قبیلے کی ایک نوجوان نے قتل کر دیا۔ لغڑئی صادق جو سمگلنگ کا کاروبارکرتا ہے۔لغڑئی صادق عصمت ملیشیا کے سابق افغان فوجی کمانڈر کوڈ انور کا بیٹا ہے۔1991 میں ریگ سپین بولدک افغانستان سے ہجرت کرکے چمن میں آباد ہو گئے۔بنیادی طور پر لغڑئی صادق کا تعلق چمن سے نہیں ہے۔[2]
عبد الرزاق اچکزئی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1979ء سپین بولدک |
وفات | 18 اکتوبر 2018ء (38–39 سال)[1] قندھار |
وجہ وفات | شوٹ |
قاتل | تحریک الاسلامی طالبان |
طرز وفات | قتل |
شہریت | افغانستان |
تعداد اولاد | 13 |
عملی زندگی | |
پیشہ | فوجی افسر ، سیاست دان |
پیشہ ورانہ زبان | پشتو |
عسکری خدمات | |
شاخ | افغان سرحدی پولیس |
عہدہ | لیفٹیننٹ جنرل بریگیڈیئر جنرل |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمعبد الرازق افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع ڈنڈه میں سال 1979ء کو پیدا ہوا۔ وہ قندھار پولیس کا سربراہ تھا۔ وہ پشتون قوم کے ایک قبیلے اچکزئی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ طالبان کے دور میں وہ اپنے والد اور چچا کے ہمراہ طالبان کے صوبه قندھار کے کمانڈر حافظ مجید نورزئی کے گرفت میں آگیا تھا اور ان تینوں کو طالبان کمانڈر حافظ مجید نورزئی نے قید کر لیا تھا، خوش قسمتی سے عبد الرازق طالبان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے چچا اور والد کو حافظ مجید نورزئی نے قتل کر دیا تھا۔
قتل
ترمیمعبد الرازق 18 اکتوبر 2018ء کو قندھار کے گورنر کے دفتر میں دیگر فوجی افسران کے ہمراہ موجود تھا کہ بعد از ظہر تقریباً 3:30 بجے وہاں موجود ایک فدائی اختر جان (ابودجانه) نورزئی نے حملہ کر دیا اور اس حملے میں کمانڈر عبد الرازق مارے گئے۔ بعد ازاں طالبان نے اس حملے کہ زمہ داری قبول کر لی۔[2]