عبد العلی برجندی
شیخ عبد العلیٰ بن محمد بن حسین برجندی جامع اصناف علوم محسوس و منقول، حاوی انواع مسائل فروع واصول،فقیہ محدث،صاحب زد و تقویٰ تھے
علم نجوم و حکمیات وریاضی میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔علم حدیث کا خواجہ مولانا اصفہانی اور فنون حکمیہ مولانا منصور ولد مولانا معین الدین کاشی سے حاصل کیے، باقی علوم متداولہ مولانا کمال الدین شیخ حسین قنوی سے اخذ کیے اور مولانا سیف الدین احمد تفتازانی اور مولانا کمال المسعود شروانی سے بھی استفادہ کیا
اور ہمیشہ اوصاف تواضع و پرہیز گاری و حلم اور دینداری سے متصف رہ کر نشر علوم اور تالیف و تصنیف میں مصروف رہے۔931ھ میں کتاب مجسطی کی شرح لکھی،فقہ میں مختصر وقایہ کی شرح نقایہ اور مناظرہ میں رسالہ عضد یہ کی شرح اور فن اصطر لاب میں رسالہ طوسی کی شرح تصنیف کی اور شرح ملخص چغمپنی قاضی زادہ موسیٰ رومی پر حواشی اور رسالہ تذکرہ اور رسالہ تحریر اور رسالہ شمسیہ پر شروع لکھے اور ایک رسالہ البعاد و اجرام میں نظم میں تصنیف کیا۔ نظام الدین لقب، ان کی ایک تصنیف ’’مسالک و سالک‘‘ یا عجائب البلدان کا قلمی نسخہ کتب خانہ گنج بخش اسلام آباد میں موجود ہے۔ [1]
عبد العلی برجندی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 15ویں صدی بیرجند |
وفات | سنہ 1528ء (27–28 سال) بیرجند |
شہریت | سلطنت صفویہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | ریاضی دان ، ماہر فلکیات ، منجم |
شعبۂ عمل | فلکیات |
درستی - ترمیم |