صفوی سلطنت
صفوی ایران یا صفوی فارس، جسے صفوی سلطنت بھی کہا جاتا ہے، ساتویں صدی کی مسلمانوں کی فارس کی فتح کے بعد سب سے بڑی ایرانی سلطنتوں میں سے ایک تھی، جس پر ١5٠١ سے ١٧٣6 تک صفویوں کی حکومت تھی. اسے اکثر جدید ایرانی تاریخ کے ساتھ ساتھ بارود کی سلطنتوں میں سے ایک کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ صفوی شاہ اسماعیل نے شیعہ مذہب کے اثنا عشری فرقے کو قبول کیا اور اسے سلطنت کے سرکاری مذہب کے طور پر قائم کیا، جو ایران کی تاریخ کے اہم ترین موڑ میں سے ایک ہے۔
کرد شیخوں کے ذریعہ قائم کردہ صوفی صفوی ترتیب میں جڑا ایک ایرانی خاندان، اس نے ترکمان، جارجیائی، سرکیسیئن اور پونٹک یونانی معززین کے ساتھ بہت زیادہ شادیاں کیں جو ترکی بولنے والے اور ترک تھے. اردبیل میں اپنے مرکز سے، صفویوں نے عظیم تر ایران کے کچھ حصوں پر کنٹرول قائم کیا اور خطے کی ایرانی شناخت کو دوبارہ قائم کیا، اس طرح وہ خریداروں کے بعد پہلا مقامی خاندان بن گیا جس نے سرکاری طور پر ایران کے نام سے ایک قومی ریاست قائم کی. ان کے اول حکمران شاہ محمد اسماعیل صفوی اول تھے ۔ صفویوں نے ١5٠١ سے ١٧٢٢ تک حکومت کی (١٧٢٩ سے ١٧٣6 اور ١٧5٠ سے ١٧٧٣ تک ایک مختصر بحالی کا تجربہ کیا) اور، اپنے عروج پر، انھوں نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول کیا جو اب ایران، جمہوریہ آذربائیجان، بحرین، آرمینیا، مشرقی جارجیا، مشرقی جارجیا کے کچھ حصوں پر ہے۔ شمالی قفقاز بشمول روس، عراق، کویت اور افغانستان، نیز ترکی، شام، پاکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے کچھ حصے.
١٧٣6 میں ان کے انتقال کے باوجود، انھوں نے جو میراث چھوڑی وہ تھی مشرق اور مغرب کے درمیان ایک اقتصادی گڑھ کے طور پر ایران کی بحالی، "چیک اینڈ بیلنس" پر مبنی ایک موثر ریاست اور دفتری نِظام کا قیام، ان کی تعمیراتی اختراعات اور ٹھیکوں کی سرپرستی۔ فنون صفویوں نے بھی ایران کے ریاستی مذہب کے طور پر اثنا عشری شیعہ مذہب کو قائم کر کے موجودہ دور تک اپنا نشان چھوڑا ہے، نیز مشرق وسطیٰٰ، وسطی ایشیا، قفقاز، اناطولیہ، خلیج فارس اور میسوپوٹیمیا کے بڑے حصوں میں شیعہ مذہب کو بزور شمشیر پھیلایا۔
پس منظر
ترمیمصفوی تاریخ کا آغاز صفویہ کے نام سے منسوب بانی صفی الدین اردبیلی (١٢5٢–١٣٣٤) کے قیام سے ہوتا ہے۔ ٧٠٠/١٣٠١ میں، صفی الدین نے اپنے روحانی آقا اور سسر زاہد گیلانی سے، گیلان میں ایک اہم صوفی حکم، زاہدیہ کی قیادت سنبھالی۔ صفی الدین کے عظیم روحانی کرشمے کی وجہ سے یہ ترتیب بعد میں صفویہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ صفوی حکم نے جلد ہی اردبیل شہر میں کافی اثر و رسوخ حاصل کر لیا اور حمد اللہ مستوفی نے نوٹ کیا کہ اردبیل کے زیادہ تر لوگ صفی الدین کے پیروکار تھے۔
صفی الدین کی مذہبی شاعری، جو پرانی آذری زبان میں لکھی گئی ہے جو اب معدوم ہو چکی شمال مغربی ایرانی زبان ہے اور اس کے ساتھ فارسی میں ایک جملہ ہے جو اس کی تفہیم میں مدد کرتا ہے، آج تک زندہ ہے اور اس کی لسانی اہمیت ہے۔
صفی الدین کے بعد صفویہ کی قیادت صدرالدین موسیٰ (†٧٩٤/١٣٩١-٩٢) کے پاس گئی۔ اس وقت کی ترتیب ایک مذہبی تحریک میں تبدیل ہو گئی تھی جس نے پورے ایران، شام اور ایشیا مائنر میں مذہبی پروپیگنڈہ کیا تھا اور غالباً اس وقت اپنی سنی شافعی اصل کو برقرار رکھا تھا۔ حکم کی قیادت صدر الدین موسیٰ سے ان کے بیٹے خواجہ علی (†١٤٢٩) اور اس کے بدلے میں ان کے بیٹے ابراہیم (†١٤٢٩–٤٧) کو ہوئی۔
١٤٤٧ میں جب ابراہیم کے بیٹے شیخ جنید نے صفویہ کی قیادت سنبھالی تو صفوی تحریک کی تاریخ یکسر بدل گئی۔ مؤرخ راجر سیوری کے مطابق، "شیخ جنید روحانی اختیار سے مطمئن نہیں تھے اور وہ مادی طاقت کی تلاش میں تھے۔"[حوالہ درکار] اس وقت ایران میں سب سے طاقتور خاندان کارا کویونلو، "کالی بھیڑ" کا تھا۔ حکمران جہاں شاہ نے جنید کو اردبیل چھوڑنے کا حکم دیا ورنہ وہ شہر پر تباہی اور بربادی لے آئے گا۔ جنید نے کارا کویونلو جہاں شاہ کے حریف آق قیوونلو (سفید بھیڑ ترکمان) خان ازون حسن سے پناہ مانگی اور ازون حسن کی بہن خدیجہ بیگم سے شادی کرکے اپنے تعلقات کو مضبوط کیا۔ جنید کو شیروان شاہ کے علاقوں میں گھسنے کے دوران مارا گیا اور اس کے بعد اس کا بیٹا حیدر صفوی تخت نشین ہوا۔
حیدر نے مارتھا عالم شاہ بیگم سے شادی کی، [38] ازون حسن کی بیٹی، جس نے صفوی خاندان کے بانی اسماعیل اول کو جنم دیا۔ مارتھا کی والدہ تھیوڈورا — جو ڈیسپینا خاتون کے نام سے مشہور ہیں [43] — ایک پونٹک یونانی شہزادی تھی، جو ٹریبیزنڈ کے گرینڈ کومنینس جان چہارم کی بیٹی تھی۔ اس نے عثمانیوں سے گرینڈ کومنینوس کے تحفظ کے بدلے ازون حسن[44] سے شادی کی تھی۔
عزون حسن کی موت کے بعد، اس کے بیٹے یعقوب نے بڑھتے ہوئے صفوی مذہبی اثر و رسوخ سے خطرہ محسوس کیا۔ یعقوب نے شیروان شاہ کے ساتھ اتحاد کیا اور ١٤٨٨ میں حیدر کو قتل کر دیا۔ اس وقت تک، صفویہ کا بڑا حصہ ایشیا مائنر اور آذربائیجان سے تعلق رکھنے والے خانہ بدوش اوغوز ترک زبان بولنے والے قبیلے تھے اور انھیں اپنے مخصوص سرخ پوشاک کی وجہ سے قزلباش "ریڈ ہیڈز" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ . قزلباش جنگجو تھے، حیدر کے روحانی پیروکار تھے اور صفوی فوجی اور سیاسی طاقت کا ذریعہ تھے۔
حیدر کی موت کے بعد، صفویہ اس کے بیٹے علی مرزا صفوی کے گرد جمع ہو گئے، جن کا تعاقب بھی کیا گیا اور بعد میں یعقوب نے اسے قتل کر دیا۔ صفوی کی سرکاری تاریخ کے مطابق، وفات سے پہلے، علی نے اپنے نوجوان بھائی اسماعیل کو صفویہ کا روحانی پیشوا نامزد کیا تھا۔
تاریخ
ترمیمشاہ اسماعیل اول کی طرف سے خاندان کی بنیاد (١5٠١-٢٤)
ترمیم
اسماعیل کی حکومت سے پہلے کا ایران
ترمیمتیموری سلطنت (١٣٧٠-١5٠6) کے زوال کے بعد، ایران سیاسی طور پر تقسیم ہو گیا، جس نے متعدد مذہبی تحریکوں کو جنم دیا۔ تیمرلین کی سیاسی اتھارٹی کے انتقال نے ایک ایسی جگہ پیدا کر دی جس میں کئی مذہبی کمیونٹیز، خاص طور پر شیعہ، سامنے آ سکتے ہیں اور اہمیت حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں متعدد صوفی بھائی چارے، حروفی، نقطوی اور مشائع تھے۔ ان مختلف تحریکوں میں صفوی قزلباش سب سے زیادہ سیاسی طور پر لچکدار تھا اور اس کی کامیابی کی وجہ سے شاہ اسماعیل اول نے ١5٠١ میں سیاسی اہمیت حاصل کی۔ اسماعیل کی قائم کردہ ایرانی ریاست سے پہلے بہت سی مقامی ریاستیں تھیں۔[46] ١5٠٠ کے قریب سب سے اہم مقامی حکمران یہ تھے:
- حسین باقرہ، ہرات کا تیموری حکمران
- الوند مرزا، تبریز کا آق قونلو خان
- مراد بیگ، عراق العجم کا حکمران آق قیوونلو
- فرخ یاسر، شیروان کا شاہ
- بدی الزمان مرزا، بلخ کا مقامی حکمران
- حسین کیا چلوی، سمنان کا مقامی حکمران
- مراد بیگ بیاندر، یزد کا مقامی حکمران
- سلطان محمود بن نظام الدین یحییٰ، سیستان کا حکمران
- مازندران اور گیلان کے کئی مقامی حکمران جیسے: بسوتن دوم، اشرف ابن تاج الدولہ، مرزا علی اور کیا حسین دوم۔
اسماعیل ان تمام سرزمینوں کو ایرانی سلطنت کے تحت جوڑنے میں کامیاب رہا۔
شاہ اسماعیل صفوی
ترمیماصل مضمون اسماعیل صفوی
شاہ اسماعیل صفوی جس وقت تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر اپنے ہمعصر بابر کی طرح صرف تیرہ سال تھی لیکن اس نے کم عمری کے باوجود حالات کا مقابلہ غیر معمولی ذہانت اور شجاعت سے کیا۔ باکو اور شیروان کو فتح کرنے کے بعد شاہ اسماعیل نے 1499ءمیں تبریز پر قبضہ کرکے آق قویونلو حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
1503ء تک اسماعیل نے جنوب میں شیراز اور یزد تک، مشرق میں استرایار تک اور مغرب میں بغداد اور موصل تک اپنی سلطنت کی حدوں کو بڑھالیا۔ ہرات میں تیموری حکمران حسین بائیقرا کے انتقال کے بعد شیبانی خان ازبک ہرات اور خراسان پر قابض ہو گیا تھا۔ 1510ء میں مرو کے قریب طاہر آباد میں شیبانی خان اور اسماعیل میں سخت جنگ ہوئی جس میں ازبکوں کو شکست ہوئی اور شیبانی خان مارا گیا۔ ازبکوں کی شکست کے بعد خراسان بھی اسماعیل کے قبضے میں آ گیا۔ اب وہ ایران، عراق اور شیروان کا بلا شرکت غیر ے مالک ہو گیا تھا اور اس کی طاقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔
شاہ اسماعیل کو اس کی فتوحات نے غرورمیں مبتلا کر دیا تھا۔ اس نے ایک عثمانی شہزادے مراد کو پناہ دی اور سلطان سلیم عثمانی کو تخت سے اتار کر شہزادہ مراد کو اس جگہ تخت پر بٹھانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ شاہ اسماعیل کی اس ناعاقبت اندیشی نے اس کو سلطان سلیم سے ٹکرادیا۔ ایران اور ترکی کی موجودہ سرحد پر ترکی کی حدود میں واقع ایک مقام چالدران کے پاس 1514ءمیں دونوں میں خونریز جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگ چالدران کے نام سے مشہور ہے۔ ایرانیوں نے بڑی ہمت سے ترکوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن ترکوں کے ایمان توکل علی اللّٰہ ،کثرت تعداد، توپ اور آتشیں اسلحے اور سلطان سلیم کی برتری فوجی مہارت کے سامنے ایرانی بے بس ہو گئے۔ ان کو شکست فاش ہوئی 25 ہزار ایرانی مارے گئے اور شاہ اسماعیل زخمی ہوکرفرار ہونے پر مجبور ہوا۔ سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر دار الحکومت تبریز پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلیم کی واپسی پر تبریز اور آذربائیجان تو صفوی سلطنت کو واپس مل گئے لیکن دیار بکر اور مشرقی ایشیائے کوچک کے صوبے ہمیشہ کے لیے صفویوں کے ہاتھ سے نکل گئے ۔
اسماعیل صفوی سے ایران کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے ایران کا شیعی دور کہا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل ایران میں اکثریت سنی حکمران خاندانوں کی رہی تھی اور سرکاری مذہب بھی اہل سنت کا تھا لیکن شاہ اسماعیل نے تبریز پر قبضہ کرنے کے بعد شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور اصحاب رسول ؓ پر تبراء کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت تبریز کی دو تہائی آبادی سنی تھی اور شیعہ اقلیت میں تھے۔ خود شیعی علما نے اس اقدام کی مخالفت کی لیکن کچھ نوجوانی کا گرم خون اور کچھ عقیدے کی محبت، شاہ اسماعیل نے ان مشوروں کو رد کرکے تلوار ہی کو سب سے بڑی مصلحت قرار دیا۔
شاہ اسماعیل صفوی نے صرف یہی نہیں کیا کہ شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا بلکہ اس نے شیعیت کو پھیلانے میں تشدد اور بدترین تعصب کا بھی ثبوت دیا۔ لوگوں کو شیعیت قبول کرنے پر ہزاروں کو قتل کرکے اور باقیوں کو تشدد کرکے مجبور کیا گیا، بکثرت علما قتل کر دیے گئے جس کی وجہ سے ہزارہا لوگوں نے ایران چھوڑدیا۔ شاہ اسماعیل کی فوج "قزلباش" کہلاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسماعیل کے باپ حیدر نے اپنے پیروؤں کے لیے سرخ رنگ کی ایک مخصوص ٹوپی مقرر کی تھی جس میں ان کے 12 اماموں کی نسبت سے 12 کنگورے تھے۔ ٹوپی کا رنگ چونکہ سرخ تھا اس لیے ترکی میں ان کو قزلباش یعنی سرخ ٹوپی والے کہا گیا۔
ایران کی زبان اگرچہ فارسی تھی لیکن آذربائیجان کی اکثریت ترکی بولتی ہے چنانچہ شاہ اسماعیل کی زبان بھی ترکی تھی۔ وہ ترکی زبان کا شاعر بھی تھا اور خطائی تخلص رکھتا تھا۔ اس کے اشعار میں تصوف کا رنگ اور اہل بیت کی محبت غلو میں پائی جاتی ہے اور شیعہ مذہب کی صوفیانہ شاعری میں اس کو اہم مقام حاصل ہے۔
طہماسپ
ترمیماصل مضمون طہماسپ اول
اسماعیل صفوی کا لڑکا طہماسپ جب تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف 10 سال تھی اس کا دور بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ 1525ء تا 1540ء تک خراسان ازبکوں کے حملے کا نشانہ بنا رہا اور اس مدت میں شیبائی خان کے لڑکے جنید خان نے 6 حملے کیے جن سے ہرات اور مشہد وغیرہ کو بہت نقصان پہنچا۔ مغرب میں عراق کو ترکوں نے ایرانیوں سے چھین لیا اور تبریز اور ہمدان پر ترک کئی برس قابض رہے۔ ان تمام حملوں کے باوجود یہ طہماسپ اور ایران کی صلاحیت کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ انھوں نے ناسازگار حالات کے باوجود باقی ایران میں امن و امان قائم رکھا اور جارجیا یا گرجستان کے مسیحیوں کے خلاف 7 مہمیں بھیجیں اور گرجستان پر ایرانی قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
اس دور کا ایک قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ انگلستان نے عثمانی ترکوں کے مقابلے میں ایران کا تعاون حاصل کرنا چاہا اور شمالی راستے سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے چاہے۔ اس مقصد کے لیے ملکہ ایلزبتھ اول نے ایک انگریز کو خط دے کر طہماسپ کے پاس روانہ کیا تو بادشاہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "ہم کافروں سے دوستی نہیں کرنا چاہتے"۔
یہ شاہ طہماسپ کا ہی زمانہ تھا کہ بابر کا لڑکا ہمایوں جسے شیر شاہ نے ہندوستان سے نکال دیا تھا، 1543ء میں ایران آیا اور طہماسپ نے اس کی خوب آؤ بھگت کی اور فوجی امداد دی جس کی وجہ سے ہمایوں دوبارہ اپنی سلطنت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوا۔
تبریز پر عثمانی قبضہ ہوجانے کی وجہ سے طہماسپ نے قزوین کو دار الحکومت منتقل کر دیا تھا۔ طہماسپ ان مسلمان حکمرانوں میں سے ہے جنھوں نے 50 سال سے زیادہ حکومت کی۔
طہماسپ کے جانشینوں شاہ اسماعیل ثانی اور محمد خدابندہ کا دور غیر اہم ہے اور ان میں سے کوئی طہماسپ جیسی صلاحیتوں کا مالک نہ تھا۔ ان کے زمانے میں خراسان ازبکوں کے اور مغربی ایران عثمانیوں کے حملوں کا نشانہ بنا اور اندرون ملک بھی بے امنی رہی۔
عباس اعظم
ترمیماصل مضمون عباس اول
عباس اعظم کا دور خاندان صفویہ کا عہد زریں ہے۔ محمد خدا بندہ کے بعد جب وہ ایران کے تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر صرف 17 سال تھی۔ ایران کے شمال مغربی حصوں پر عثمانی ترک قابض تھے اور مشرق میں خراسان ازبکوں کے قبضے میں تھا یا ان کی تاخت و تاراج کا ہدف بنا ہوا تھا۔ اندرون ملک بھی بے امنی تھی اور صوبوں کے امرا سرکشی اختیار کیے ہوئے تھے۔
عباس نے اس صورت حال کا بڑے تدبر اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا۔ اس نے سب سے پہلے ترکوں سے معاہدہ کر لیا اور آذربائیجان، گرجستان اور لورستان کا ایک حصہ اُن کے حوالے کر دیا۔ شاہ اسماعیل کے زمانے میں ایران میں اصحاب کرام پر تبرا بھیجنے کی جو قبیح رسم چلی آ رہی تھی، اس کو بھی بند کرادیا اور اس طرح عثمانی ترکوں کو ایک حد تک مطمئن کر دیا۔ مغربی سرحد سے مطمئن ہونے کے بعد شاہ عباس نے خراسان کی طرف توجہ کی۔ ازبکوں کا طاقتور حکمران عبداللہ خان 1598ء میں مرچکا تھا۔ اس لیے شاہ عباس نے اسی سال آسانی سے ازبکوں کو خراسان سے نکال دیا اور صفوی سلطنت کی حدود ہرات اور مرو تک وسیع کر دیں۔
فتوحات
ترمیممشرقی سرحدوں کو مستحکم کرنے کے بعد شاہ عباس نے ترکوں سے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔ اس نے ترکوں کی فوج ینی چری کے نمونے پر ایک فوج تیار کی جو "شاہ سورن" کہلاتی تھی اور گرجستان اور آرمینیا کے نو مسلموں پر مشتمل تھی لیکن ایرانیوں کی سب سے بڑی کمزوری توپ خانے کی عدم موجودگی تھی۔ اس وقت جبکہ ساری دنیا میں توپوں کا رواج ہو چکا تھا اور خود ایران کے مغرب میں عثمانی ترک اور مشرقی میں دہلی کے مغل سلاطین توپیں استعمال کر رہے تھے، ایرانی فوج ابھی تک اس اہم جنگی ہتھیار سے محروم تھی۔ مغربی قومیں صلیبی جنگوں کے زمانے سے اس پالیسی پر عمل پیرا تھیں کہ مشرق وسطیٰ کی طاقتور مسلمان حکومتوں کا زور توڑنے کے لیے دوسری مسلمان حکومتوں کا تعاون حاصل کریں۔ اس غرض سے انھوں نے مصر کے مملوکوں اور ترکی کے عثمانیوں کے خلاف منگولوں، باطنیوں اور آق قویونلو ترکمانوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی اور اب وہ عثمانی ترکوں کا زور توڑنے کے لیے ایران کی صفوی حکومت کا تعاون حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ طہماسپ کے زمانے میں ملکہ ایلزبتھ اس مقصد میں ناکام ہو گئی تھی لیکن شاہ عباس کے دور میں ان کو اس مقصد کے حصول میں خاصی کامیابی ہوئی۔
1599ء میں دو انگریز بھائی انتھونی شرلے اور رابرٹ لرشے ترکوں کے خلاف مسیحی اتحاد کے لیے ایران سے مدد حاصل کرنے کے لیے اور ایران اور یورپ کے درمیان تجارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے آئے۔ شاہ عباس نے ان سے کوئی معاہدہ تو نہیں کیا، لیکن ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں ان سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کر دیا۔ جب ایرانی فوج جدید آتشیں ہتھیاروں اور توپوں سے مسلح ہو گئی تو شاہ عباس نے 1602ء میں عین اس وقت جب عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے، حملہ کر دیا اور تبریز، شیروان اور پرتگالیوں سے بندرگاہ ہرمز چھین لیا اور خلیج فارس کے ساحل پر ایک نئی بندرگاہ قائم کی جو آج تک بندر عباس کہلاتی ہے۔ اسی سال شاہ عباس نے دہلی کی تیموری سلطنت سے قندھار بھی چھین لیا۔
شاہ عباس اگرچہ ایک کامیاب اور سمجھدار حکمران تھا لیکن اعظم کا لقب اس کو زیب نہیں دیتا۔ وہ انتہائی ظالم اور شکی مزاج تھا اس نے محض شک کی بنیاد پر اپنے ایک لڑکے کو قتل اور دو کو اندھا کر دیا تھا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے دور میں 500 جلاد لوگوں کو قتل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، وہ بدترین مستبد حکمران تھا۔
صفوی دور علمی لحاظ سے بنجر دور ہے لیکن شاہ عباس کے زمانے میں علم و ادب کے میدان میں تھوڑی سے زندگی نظر آتی ہے۔ اس کے درباری علما میں میر محمد باقر بن محمد داماد قابل ذکر ہیں۔ مطالعہ قدرت اور فلسفہ ان کا خاص موضوع تھا۔ بہاء الدین آملی اور صدر الدین شیرازی بھی جو ملا صدرا کے نام سے مشہور تھے، اس دور کی اہم علمی اور ادبی شخصیتیں ہیں۔ ملا صدرا کی فلسفے کی ضخیم کتاب "اسفار اربعہ" کا اردو میں 4 جلدوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
اصفہان
ترمیماصل مضمون اصفہان
شاہ عباس کے زمانے میں فنون لطیفہ نے خاص طور پر فن تعمیر اور فن مصوری نے بہت ترقی کی۔ دارالحکومت اصفہان کو بڑی ترقی دی گئی اور شاندار عمارتیں بنائی گئیں۔
شروع میں صفویوں کادارالحکومت تبریز تھا لیکن وہ ہمیشہ عثمانی ترکوں کی زد میں رہتا تھا۔ اس لیے عباس اعظم نے ایران کے وسط میں اصفہان کو دار السلطنت بنایا۔
عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو "اصفہان نصف جہان" کہنے لگے۔ اس زمانے میں اصفہان کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی جو قسطنطنیہ اور قاہرہ کو چھوڑ کر اس زمانے کے کسی شہر میں نہیں تھیں۔ لاہور، دہلی اور آگرہ کی شاندار عمارات ابھی تعمیر ہی نہیں ہوئی تھیں۔ عباس نے اصفہان میں جو عمارتیں بنوائیں ان میں جامع مسجد، قصر چہل ستون، زندہ رود ندی کے دو پل اور چہار باغ بہت مشہور ہیں۔ یہ عمارتیں آج بھی اصفہان کی سب سے پرشکوہ عمارتیں ہیں۔
زوال اور خاتمہ
ترمیمعباس کے بعد صفوی خاندان میں 4 حکمران ہوئے۔ عباس کا جانشیں شاہ صفی (1629ء تا 1641ء) نہایت ظالم اور سفاک تھا۔ اس کے عہد میں 1634ء میں بغداد پر ترکوں نے اور 1638ء میں قندھار پر دہلی کے مغلوں نے قبضہ کر لیا۔ اگرچہ خراسان پر ازبکوں کے حملے اس نے پسپا کر دیے۔
عباس دوم (1641ء تا 1668ء) کے عہد میں ایران کو پھر خوش حالی نصیب ہوئی۔ رعایا کے ساتھ اس کا سلوک منصفانہ تھا۔ اس نے 1649ء میں قندھار پھر واپس لے لیا۔ اس کا جانشیں سلیمان (1668ء تا 1694ء) اپنے باپ کی پالیسی پر چلتا رہا اور اس کا دور عہد صفویوں کا آخری پرامن دور تھا۔
سلیمان کے بعد صفویوں کا زوال شروع ہو گیا۔ آخری حکمران شاہ حسنین (1694ء تا 1722ء) نا اہل ثابت ہوا۔ شیعہ علما کے زیر اثر آکر اس نے سنیوں پر مظالم کیے جس کا نتیجہ افغانوں کی بغاوت کی شکل میں نکلا۔ قندھار کے افغانوں نے دہلی کے مغلوں سے بچنے کے لیے خود کو ایران کی حفاظت میں دے دیا تھا لیکن جب ایرانیوں نے ان پر سختی کی تو انھوں نے اپنے ایک سردار میر اویس کی قیادت میں آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1715ء میں اویس کے انتقال کے بعد اس کے جانشیں امیر محمود نے ایران پر حملہ کر دیا اور 1722ء میں اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
صفوی دور کی خصوصیات
ترمیمصفوی سلطنت ایران کی آخری طاقتور اور پرشکوہ حکومت تھی۔ ساسانیوں، سلجوقیوں اور تیموریوں کی طرح صفویوں نے بھی دنیا بھر میں ایران کا بڑا نام کیا۔
صفوی حکومت سوا دو سو سال قائم رہی۔ اس زمانے میں علمی ترقی جس میں ایران ہمیشہ سے ممتاز رہا، بالکل ختم ہو گئی۔ اس لیے صفوی دور میں ایسے بڑے بڑے عالم اور مصنف پیدا نہیں ہوئے جیسے پچھلے دور میں ہوئے تھے۔ کچھ شاعر اور مؤرخ البتہ پیدا ہوئے لیکن وہ بھی ایران چھوڑ کر دہلی اور آگرہ چلے گئے کیونکہ وہاں ان کی سرپرستی صفویوں سے زیادہ کی جاتی تھی۔ صفوی دور صرف فن تعمیر اور مصوری کی وجہ سے مشہور ہے۔ رضا عباسی اور میرا اس زمانے کے مشہور مصور ہیں۔ ایران کا سب سے بڑا مصور بہزاد آخری زمانے میں تبریز آ گیا تھا جو اس وقت شاہ اسماعیل کا دار السلطنت تھا۔
صفوی دور میں صنعت و حرفت کو بھی ترقی ہوئی، بہترین قسم کے سوتی اور ریشمی کپڑے تیار ہونے لگے اور ایران کے مشہور قالین کی صنعت نے عروج پایا۔ صفویوں کے بعد ان صنعتوں کو بھی زوال ہو گیا۔
صفویوں کا سب سے بڑا کارنامہ ایران میں فوجی حکومت کا قیام بتایا جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے ایران کی سنی آبادی کو جس طرح بزور شمشیر شیعہ بنایا اور علما کو قتل کرایا وہ تاریخ اسلام کا ایک کریہہ باب ہے۔ ایران میں شیعیت کے فروغ نے اور اس معاملے میں ایرانیوں کے غلو اور تعصب نے ایران کو باقی اسلامی دنیا سے کاٹ دیا اور اپنے پڑوسیوں کو بھی اپنا دشمن بنالیا۔ اسلامی دنیا سے کٹ جانے سے ایران کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایرانیوں کی تخلیقی قوتوں کے اظہار کے راستے بند ہو گئے اور ایران باقی اسلامی دنیا کے افکار سے پہلے کی طرح استفادہ کرنے سے محروم ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایران قبول اسلام کے بعد سے تیموری دور تک عالمی اسلام کے بہترین دماغ پیدا کرتا رہا اسی ایران کی سرزمین عہد صفوی میں اہل علم و کمال کے لیے بنجر ہو گئی۔ اس کے بر خلاف بر صغیر کے تیموری سلاطین نے رواداری اور وسعت قلبی کا ثبوت دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران کے صاحب کمال ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور تیموری مملکت میں علم و ادب کو غیر معمولی فروغ ملا۔ ایران میں متعصب شیعی حکومت قائم ہونے کی وجہ سے اسلامی دنیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ برصغیر اور ترکستان کا دنیائے عرب اور ترکی سے روایتی تعلق بڑی حد تک ختم ہو گیا اور مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف علوم و افکار کی منتقلی میں رکاوٹیں پڑگئیں۔ یہ بات ایران ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے زوال کا باعث بنی۔ موجودہ دور کے ایرانی مورخین بھی صفوی سلاطین کے مذہبی مظالم، تنگ نظری اور تعصب کی مذت کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ صفوی سلاطین نے ایرانیوں کو شیعیت پر متحد کرکے ایران کے قومی وجود کا تحفظ کیا ورنہ ایران بھی سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بن جاتا۔
حکمران
ترمیمتصویر | لقب | نام | پیدايش | دور حکومت | وفات |
---|---|---|---|---|---|
ابو المظفر خطائی | اسماعیل ابن شیخ حیدر | 1487 | 1502 - 1524 | 1524ء | |
ابو الفتح | طہماسپ ابن اسماعیل | 1514 | 1524–1576 | 1576ء | |
ابو المظفر | اسماعیل میرزا ابن طہماسپ | 1537 | 1576–1578 | 1577 | |
ابو المظفر | محمد خدابندہ ابن طہماسپ | 1532 | 1578–1587 | 1595 | |
شاہ عَباس بُزُرگ | عباس ابن محمد خدابندہ | 1571 | 1587 - 1629 | 1629 | |
شاہ صفی | ابو الناصر سام میرزا ابن محمد باقر فیضی ابن عباس | 1611 | 1629 - 1642 | 1642 | |
ابو المظفر | عباس ابن شاہ صفی | 1632 | 1642 - 1667 | 1667 | |
ابو المنصور | سلیمان ابن عباس | 1647 | 1667 – 1694 | 1694 | |
العادل، الکامل، الھادی، الواثق، ابو المظفر | سلطان حسین میرزا ابن سلیمان | 1668؟ | 1694–1722 | 1726ء | |
شاہ افغان | شاہ محمود ہوتکی | 1697 | 1717 - 1725 | 1725 | |
شاہ افغان | شاہ أشرف ہوتکی | ~ | 1725–1729 | 1730 | |
90px | طہماسپ ابن سلطان حسین | 1704 | 1722 - 1732 | 1740 | |
90px | عباس ابن طہماسپ ثانی نادر شاہ کے زیر سایہ ایک کٹھ پتلی شاہ |
؟ | تاجداری بنیادی طور پر نادر شاہ نے ختم کر دی 1732–1736 | 1739 - 40؟ |