عثمان ہارونی

سلسلہ چشتیہ کے نامور بزرگ اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے مرشد

خواجہ عثمان ہارونی طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے اور اپنے وقت کے قطب الاقطاب مانے جاتے تھے۔

عثمان ہارونی
معلومات شخصیت
پیدائش 6 مئی 1107ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیشاپور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 مئی 1207ء (100 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ ،  دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت المعلیٰ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ شریف زندنی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص خواجہ معین الدین چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی ،  صوفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

نام عثمان کنیت ابو النور تھی۔لقب: شیخ الاسلام۔سلسلہ نسب:آپ کاسلسلہ نسب گیارہویں پشت میں مولا علی شیر خدا تک پہنچتا ہے۔[1]آپ ہارون کے رہنے والے تھے یہ نیشا پور کا ایک گاؤں ہے جس کی وجہ سے آپ کے نام کے ساتھ ہارونی لکھا جاتا ہے۔

تاریخِ ولادت

ترمیم

آپ کی ولادت باسعادت اکثر مؤرخین کے نزدیک 500ھ،1107ء کو قصبہ ’’ہارون یاہرون‘‘ خراسان میں ہوئی۔[2]

تحصیلِ علم

ترمیم

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے۔ وہاں مشاہیر علما ءو فضلاء کی سرپرستی میں علوم و فنون حاصل کیے۔ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ "آپ کا خاندان چوں کہ عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی جیدعالم تھے، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علما و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ ومتداولہ میں دسترس حاصل کی۔جلد ہی آپ کاشمار وقت کے علماءوفضلاءمیں ہونے لگا۔

بیعت و خلافت

ترمیم

ظاہری علوم کی تکمیل اس مرد باصفا کی آخری منزل نہ تھی۔اس لیے علوم باطنیہ کی تحصیل کاعزم مصمم کیا اللہ جل شانہ نے آپ کے پرخلوص ارادے کی بدولت امام الاولیاء،قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ خواجہ محمد شریف زندنی کی خانقاہ معلیٰ میں پہنچادیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کرنے لگے۔عبادت وریاضت اور مجاہدۂ ومکاشفہ نے جب کندن بنادیا تونگاہ ِمرشدنے منصبِ خلافت کے لیے منتخب فرمالیا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔اسی طرح خواجہ مودود چشتی سے بھی فیض یاب ہوئے۔

مرشد کی عنایات

ترمیم

جس دن عثمان ہارونی کو خرقہ خلافت ملا تو آپ کے پیرومرشد شریف زندنی نے کلاہ چار ترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کردینا ہے:

  1. ۔ ترک دنیا۔
  2. ۔ ترک عقبیٰ۔ یعنی اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہونا
  3. ۔ ترک کھانا پینا۔ اس سے مراد کم کھانا اور کم سونا ہے۔
  4. ۔ ترک خواہش نفس۔ یعنی جو کچھ نفس کہے اس کے خلاف کیا جائے۔[3]

آتش پرستوں کی بستی

ترمیم

معین الدین چشتی سے روایت ہے کہ ایک دن عثمان ہارونی کے ہمراہ دوران سفر ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں آتش پرستوں کی بستی تھی وہاں ایک آتش کدہ تھا جس کی آگ کسی دن بھی سرد نہیں ہوئی تھی۔ عثمان ہارونی نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خدا کی پرستش کیوں نہیں کرتے جس نے اس آگ کو پیدا کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب میں آگ کو بڑا مانا گیا ہے۔ عثمان ہارونی نے فرمایا کیا تم اپنے ہاتھ پاؤں کو آگ میں ڈال سکتے ہو۔ انھوں نے کہا کہ آگ کا کام جلانا ہے یہ کس کی مجال ہے کہ اس کے قریب بھی جائے۔ یہ بات سن کرعثمان ہارونی نے ایک بچہ جو ایک آتش پرست کی گود میں تھا لیا اور بچے سمیت آگ میں کود گئے اور چار گھنٹے کے بعد باہر آئے۔ نہ تو آپ کا خرقہ آگ سے جلا اور نہ ہی بچے پر آگ کا کوئی اثر ہوا۔ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر تمام آتش پرست مسلمان ہو گئے اور آپ کے حلقہ ادارت میں شامل ہو گئے۔ آپ نے ان کے سردار کا نام عبد اللہ اور اس چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا۔[4]

سیرت وخصائص

ترمیم

قطب الاقطاب،ناصرالاسلام،عارف اسرار رحمانی،واصل ذاتِ باری،محبوب صاحب ِ لامکانی،شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی﷫۔آپ علیہ الرحمہ کاشمار اکابرین ِ امت اور کبار اولیاءِ کرام ومشائخِ عظام میں ہوتا ہے۔علوم ظاہریہ وعلوم باطنیہ ،شریعت وطریقت،تصوف ومعرفت میں مجمع البحرین تھے۔تاریخِ مشائخِ چشت میں ہے:’’در علم ِ شریعت وطریقت وحقیقت اعلم بود‘‘[5] طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے انھیں خواجہ حاجی شریف زندنی سے خرقہ خلافت حاصل ہوا۔ جبکہ خواجہ مودود چشتی سے بھی فیضیاب ہوئے آپ کے چار خلفاء تھے

وصال

ترمیم

آپ کا وصال 5 شوال 617ھ کو ہوا اس وقت ان کی عمر 91 سال تھی[3] آخری وقت میں مکہ مکرمہ میں چلے گئے اور جنت المعلیٰ کے قریب دفن ہوئے۔ ان کی بارگاہ میں خواجہ معین الدین چشتی 32 سال رہے۔ 20 سال کی عمر میں آئے اور 52 سال کی عمر میں خلافت سے نوازے گئے۔ ان ایام میں اپنے مرشد نے جو ملفوظات فرمائے انھیں انیس الارواح کے نام سے تحریر کیا [6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرتِ خواجہ غریب نواز:42
  2. اہل سنت کی آواز،خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ2008ء/1429ھ،صفحہ:200
  3. ^ ا ب خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 57مکتبہ نبویہ لاہور
  4. خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 59مکتبہ نبویہ لاہور
  5. ۔بہارِ چشت:77
  6. بہار چشت ذکر خواجہ عثمان ہارونی