علاء الحضرمی
علاء حضرمی صحابی رسول کاتب وحی کا نام ہے انھیں العلاء بن حضرمی بھی کہا جاتا ہے
علاء الحضرمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ وفات | سنہ 635ء |
عملی زندگی | |
پیشہ | والی |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعلاء نام، باپ کا نام عبد اللہ تھا، نسب نامہ یہ ہے،علاء بن عبد اللہ حضرمی بن ضماد بن سلمی بن اکبر،علاء نسلاً حضرمی اور وطنا یمنی تھے،لیکن ان کے والد عبد اللہ حرب بن امیہ کے حلیف بن کر مکہ ہی میں مقیم ہو گئے تھے۔
اسلام
ترمیمدعوتِ اسلام کے آغاز میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
سفارت
ترمیمفتح مکہ کے بعد جب آنحضرتﷺ نے قرب وجوار کے فرمان رواؤں کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط بھیجے تو منذر بن ساویٰ حاکمِ بحرین کے پاس خط لیجانے کی خدمت علاء کے سپرد ہوئی،اس خط پر منذر اوراس کے ساتھ اس کی کل عرب رعایا اسلام کی حلقہ بگوش ہو گئی البتہ مجوسی اپنے مذہب پر قائم رہے،علاء نے ان پر جزیہ لگادیا اوراس کے متعلق عہد نامہ لکھ کر منذر کے حوالہ کیا [1]، ان کی اس خدمت کے صلہ میں آنحضرتﷺ نے انھیں بحرین کا عامل بنادیا پھر کچھ دنوں کے بعد ان کو معزول کرکے ابان بن سعید بن العاص کو مقرر کیا۔[2] آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ابان اس عہدہ سے مستعفی ہو گئے علاء کو بحرین کی امارت کا تجربہ تھا،اس لیے ابوبکر نے دوبارہ ان کو مقرر کیا،اسی زمانہ میں منذر کا انتقال ہو گیا ان کی موت سے بحرین کا نظام درہم برہم ہو گیا اوروہاں ارتداد کی وبا پھیل گئی،ربیعہ کا پورا قبیلہ اور بشر بن عمرو عبدری مع اپنے اتباع کے مرتد ہو گیا،نعمان بن منذر کا لڑکا منذران سب کا سرغنہ تھا، دوسری طرف بنی قیس بن ثعلبہ حطیم کی سرکردگی میں مرتد ہو گئے اوریہ سب کے سب بحرین کے ایک قلعہ جواث میں قلعہ بند ہو گئے،علاء بن حضرمی اس وقت بحرین کے عامل تھے،انھوں نے جواث کا محاصرہ کر لیا اور شبخون مارکر مرتدین کے سرگردہ حطیم اورمنذر کو قتل کرڈالا،بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ منذر بچ کر نگل گیا، اس کے بعد مجوسی مقام قطیف میں مخالفانہ جمع ہوئے، اتفاق سے اسی زمانہ میں بنی تمیم نے ایک ایرانی قافلہ کو چھیڑا تھا،اس لیے کسریٰ نے فیروز بن جشیش کو بنی تمیم کی تنبیہ کے لیے بھیجا، اس نے زرارہ میں فوجیں اتاریں ،قطیف کے باغی مجوسیوں کو اس کی آمد کی خبر ہوئی،تو وہ فیروز سے جاکر مل گئے اورجزیہ دینے سے انکار کر دیا، اس لیے علاء نے مرتدوں کی سرکوبی کے بعد ان مجوسیوں کا محاصرہ کیا،ابھی محاصرہ جاری تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہو گیا، مگر علاء نے محاصرہ قائم رکھا اورحضرت عمرؓ کی مسند نشینی کے بعد مجوسیوں کو مطیع بنایا۔[3] بحرین اوراس کے قرب وجوار کا پورا علاقہ ایرانیوں کے ماتحت تھا،صرف یہاں کے عرب قبائل مشرف با سلام ہوئے تھے، باقی مجوسی اپنے آبائی مذہب پر قائم تھے اور جزیہ ادا کرتے تھے؛ لیکن جب انھیں موقع ملتا تھا فورا ًباغی ہوجاتے تھے ،جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں ہوا،اس لیے زرارہ سے نپٹنے کے بعدعلاء مجوسیوں کی بغاوت کا سد باب کرنے کے لیے دارین پہنچے اور یہاں سے مجوسی آبادی کو نکال کر عرفجہ بن ہر ثمہ کو بحری علاقوں کی طرف بھیجا، انھوں نے دریا کو عبور کرکے بحرین کے ایک جزیرہ پر قبضہ کرکے یہاں ایک مسجد تعمیر کی۔[4]
بصرہ کی حکومت اوروفات
ترمیمبصرہ آباد ہونے کے بعد حضرت عمر نے عتبہ بن غزوان کو یہاں کا حاکم بنایا تھا،چند دنوں کے بعد انھیں معزول کرکے علاء کو ان کی جگہ مقرر کیا اوران کو لکھا کہ تم فوراً بحرین چھوڑ کر بصرہ کا انتظام سنبھالو،اس حکم پر علاء ابوہریرہ اور ابوبکرہ کے ساتھ بصرہ روانہ ہو گئے،لیکن فرمانِ خلافت کے ساتھ ہی ساتھ پیام اجل بھی پہنچ گیا اور علاء راستہ میں مقام لیاس میں انتقال کرگئے،یہ مقام آبادی سے دور اور بے آب وگیاہ تھا،پانی کی بڑی قلت تھی،حسن اتفاق سے پانی برس گیا، ساتھیوں نے بارش کے پانی سے نہلایا اور تلوار سے گڈھا کھود کر زمین میں چھپادیااور بحرین وبصرہ کا حاکم اس بے سروسامانی کے ساتھ ایک بے آب و گیاہ میدان میں سپرد خاک کیا گیا۔