علی احمد صابر کلیر

متحدہ ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ

مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیر (پیدائش: 21 فروری 1196ء— وفات: 16 مارچ 1291ء) تیرہویں صدی عیسوی کے مشہور مسلم صوفی تھے۔

علی احمد صابر کلیر
معلومات شخصیت
پیدائش 21 فروری 1196ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 مارچ 1291ء (95 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ واعظ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شجرہ نسب ترمیم

مخدوم شیخ سید علاء الدین علی احمد صابر کلیری مستند روایت میں والد کی طرف سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے پڑ پوتے ہیں اور والدہ کی طرف سے آپ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد ہیں اور فرید الدین گنج شکر کے حقیقی بھانجے اور داماد بھی ہیں۔

ولادت ترمیم

آپ 19؍ ربیع الاول 592ھ میں ملتان کے ایک مقام کوتوال میں پیدا ہوئے پرورش و پرداخت والدہ ماجدہ کی نگرانی میں ہوئی۔[1]

بیعت و خلافت ترمیم

آٹھ سال کی عمر میں آپ اپنے ماموں کی خدمت میں پاکپتن آ گئے۔ 603ہجری میں ان سے بیعت کی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل فرید الدین گنج شکر کی نگرانی میں فرمائی اور یگانہ روزگار ہوئے۔ بابا فرید الدین نے آپ کو بیعت و خلافت عطا کر کے مخلوق کی رشد و ہدایت کے لیے کلیر شریف روانہ فرمایا۔ باوجود یکہ آپ پر شوق و حال کا غلبہ رہتا تھا اور تجرید و تفرید کی زندگی رکھتے تھے مگر عائد کردہ فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا اور دین و سنیت کی ایسی شمع روشن کی کہ اس کی لو کبھی مدہم نہ ہوئی۔ منقول ہے کہ آپ ایک طویل عرصہ تک ماموں جان کے لنگر خانے کے نگراں رہے مگر وہاں سے ایک دانا بھی نہ کھایا اور اس کے بعد سے آپ کا لقب صابر ہو گیا۔ بارہ سال تک کلیر میں گولر کی شاخ پکڑ کر عالم تحیر میں کھڑے رہے مگر پائے عزیمت میں جنبش تک نہ آئی۔ جس پر نگاہ جمال ڈالتے وہ باکمال ہو جاتا اور جس چیز پر نگاہ قہر ڈالتے وہ خاکستر ہو جاتی۔ حضرت بابا صاحب نے فرمایا تھا کہ میرے سینے کا علم نظام الدین کے پاس ہے اور دل کا علم علاء الدین کے پاس ہے۔[2]

وصال ترمیم

آپ کی تاریخ وصال 13؍ ربیع الاول 690ھ ہے مزار مقدس سرزمین کلیر ضلع سہارن پور میں نہر گنگ کے کنارے پرمرجع انام ہے۔ سلسلۂ چشتیہ کی دوسری سب سے بڑی شاخ آپ ہی کی نسبت سے صابری کہلاتی ہے اور آپ کے سلسلہ میں اتنے اولیاء و علما پیدا ہوئے کہ شمار ناممکن ہے۔ آپ دوران سماع واصل بحق ہوئے[3] آپ خلاف شریعت نہ خود چلے نہ دوسروں کو چلتا دیکھ سکتے تھے۔ بلکہ احکام اسلام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سختی سے ڈانٹتے تھے۔ ا تو آپ کو دین اسلام کی تبلیغ اور علوم دین کی اشاعت کے لیے جناب فرید نے شہر فیض بخش کلیر کو جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ پاکپتن سے کلیر تشریف لے گئے۔ اور وہاں پہنچ کر اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا شروع کر دیا۔ ابھی کلیر میں آئے ہوئے آپ کو تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ آپ کے کمالات علمی کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ایک خلق خدا آپ سے فیض پانے لگی۔ جب شہر کلیر برباد ہوا تو اس کے بعد لوگوں پر آپ کی روحانی قوت کی اتنی ہیبت چھا گئی۔ کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے انھیں خوف آتا تھا۔ آپ کے خلفاءمیں شیخ شمس الدین ترک پانی پتی آپ کے ممتاز خلیفہ ہیں۔ وہ آپ کی خدمت میں کامل بتیس برس تک رہے۔ اور کبھی آپ سے جدا نہیں ہوئے جب ترک پانی پتی آپ سے روحانی تحصیل کر چکے تو آپ نے انھیں حکم دیا کہ جاؤ سواروں میں جا کر ملازم ہو جا ؤاور دیکھو جس روز تمھاری کوئی دعا کسی کے حق میں قبول ہو جائے۔ سمجھ لینا کہ میں دنیا سے چلا گیا۔ چنانچہ ترک پانی پتی مرشد کے حکم سے شاہی فوج میں نوکر ہو گئے۔ اور سلطان علاء الدین خلجی کے ساتھ چتور گڑھ کی مہم کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ سلطان نے بڑی کوشش کی اور ایک طویل عرصے تک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ مگر قلعہ فتح نہ ہوا۔ اسی دوران میں ایک روز رات کو ایسی آندھی چلی کہ تمام لشکر کے چراغ پٹ ہو گئے۔ مگر ایک چراغ جل رہا تھا جسے دیکھ کر سلطان کو بڑا تعجب ہوا۔ سلطان معلوم کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص خیمے میں قرآن پڑھ رہا ہے۔ وہ یہ ماجرا دیکھ کر چپ چاپ مؤدب کھڑا رہا۔ جب ترک پانی پتی قرآن حکیم کی تلاوت سے فارغ ہوئے۔ تو سلطان کو باہر کھڑا دیکھ کر جلدی سے اس کی تعظیم کے لیے آگے بڑھے اور پوچھا کہ حضور نے اس وقت کیسے زحمت فرمائی۔ سلطان نے کہا میرا قصور معاف کر دیجیے۔ اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کیجیے۔ کہ قلعہ فتح ہو جائے۔ آپ نے یہ سن کر کہا کہ میں تو آپ کی فوج کا ایک ادنیٰ سا ملازم ہوں۔ مجھے ایسی مقبولیت کہاں نصیب ہے جو میری دعا قبول ہو جائے۔ آپ کو شاید کسی نے بہکا دیا ہے۔ سلطان نے اصرار کیا کہ نہیں ایسا نہ کہیے۔ آپ دعا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ چنانچہ ترک پانی پتی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ اللہ نے دعا قبول فرما لی۔ اور قلعہ فتح ہو گیا۔ قدرت خدا جناب مخدوم کلیری کی بات پوری ہوئی۔ جس روز ترک پانی پتی کی دعا قبول ہوئی۔ اسی روز جناب مخدوم کلیری کا انتقال ہو گیا۔ ترک پانی پتی کے دل نے اس واقعہ ناگزیر کی گواہی دی۔ چنانچہ وہ کلیر پہنچے اور اپنے مرشد کے تجہیز و تکفین کے فرض کو سر انجام دیا۔ شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے اپنے عہد میں آپ کے مزار کا گنبد تعمیر کرایاتھا۔ خواجہ حسن نظامی نے آپ کے عرس کی ایک کیفیت لکھی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے چودہ تک جناب مخدوم کلیری کا عرس ہوتا ہے۔ جس میں دو لاکھ کے قریب مجمع ہوتا ہے۔ صابریہ سلسلے کے تمام مشائخ اور ان کی خانقاہوں کے سجادہ نشین اس میں شامل ہوتے ہیں۔[4]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 180ناشر مکتبہ الشیخ کراچی
  2. خزینۃ الاصفیاءجلد دوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 153مکتبہ نبویہ لاہور
  3. خزینۃ الاصفیاء جلددوم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 159مکتبہ نبویہ لاہور
  4. Religion Articles : Hamariweb.com - حضرت خواجہ مخدوم علاؤ الدین کلیری قدس سرہ العزیز تحریر:پیرمحمدامیرسلطان چشتی قادری اوگالی شریف