علم الاعداد
اعداد سے متعلق کوئی بھی عقیدہ، صوفیانہ (عرفانی) یا دیگر اعداد کے درمیان خصوصی واقعات و تعلقات وغیرہ کا علم۔ کسی فرد کی زندگی پر اعداد کا پراسرار اثر ہونے کا عقیدہ۔[1]
علم جفر
علم الجفر کی افادیت پر ، حصہ آثار و اخبار پر اس سے قبل کئی مضامین پیش کیے جا چکے ، گو کہ علم الجفر کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں تاریخ میں اس کے واضح شواہد ملتے ہیں۔یہاں چند تاریخ کے اوراق سے کچھ حوالہ جات دیے جا رہے ہیں جو اس علم کی صداقت کے لیے کافی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم حوالہ جات پیش کریں مناسب سمجھتے ہیں کہ ان علما کے نام اور کتب کے نام بھی تحریر کر دیں جنھوں نے علم الجفر پر کافی ریسرچ کی واضح رہے کہ یہ علما مسلمانوں کے ہر دو مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
علم جفر پر تحقیق کرنے والے چند مشہور نام
ترمیمرسالہ فی الجفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام احمد رضا بریلوی
سرالاسرار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منصور ابن حلاج بغدادی
بحرالوقوف علم الحروف۔۔۔۔۔ منصور ابن عربی
نصوص الانوارحرفیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو الخیر رابع(رح)۔
فصوص الحروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبد اللہ قرطبی(رح)۔
قوانین تکوین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محی الدین ابن عربی (رح)۔
اسرار جفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر الدین طوسی (رح)۔
زائرجات و اشرف المربعات ۔۔۔۔ امام غزالی(رح)۔
کشف الاخبار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام خمینی
سر الاخبار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طوخی الفلکی
کشف المکنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکرم علی معظم
قرص الشمس فی بیان الحروف۔۔۔۔ حضرت عمر بن الفارس الحوی(رح)۔
منتہی الکمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبد العزیز پرہاروی(رح)۔
مخزن الحروف۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر الدین سیوطی( رح)۔
حقائق الیقین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بایزیز بسطامی
مدارج البروج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ زرقافی(رح)۔
معانی الاعداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمشید بصری(رح)۔
یقین من الحروف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن انطاکی (رح)۔۔۔۔
یہ چند کتب اور ان کے مصنفین کے نام تحریر کیے گئے ہیں جو علم الجفر پر تحریر کی گئی ہیں۔
ان میں امام غزالی(رح) جیسی شخصیت شامل ہے ۔
زین الدین ابو حامد محمد بن محمد بن احمد الطوسی الغزالی جن کی وفات 505 ہجری میں ہوئی ان کے جو اوصاف کتب میں ملتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں
علامہ یافعی نے ان کے حالات کتاب "مراۃ الجنان”جلد نمبر 3 صفحہ 177میں تحریر کیے ہیں جن کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ سواد اعظم میں ان کی عظمت شان و جلالت کس قدر رفیع تھی ان کا لقظ "حجۃ الاسلام” عام ہے ۔
امام یافعی لکھتے ہیں کہ "امام غزالی وہ علوم کے سمندر ہیں جن کے اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عیسٰی(ع)و موسیٰ(ع) سے فخر و مباہات کیا تھا”۔
اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی نے کتاب التنبیہ بمن یبت اللہ علی راس کل مآۃ میں کہا ہے کہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی نے شرح مواہب لدینہ جلد 1 ص36میں ان کی بڑی توصیف و تعریف کی ہے نیز ملاحظہ ہو شہاب الدین دولت آبادی کی کتاب ہدایت السعداء۔
ب آئیے ذرا تاریخ کی جانب۔۔۔۔۔۔
علم جفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی زبان میں جفر یا جفرہ بکری کے اس بچے کو کہا جاتا ہے جو چار ماہ کا ہو اور دودھ پینا چھوڑ کر گھاس چرنا اور جگالی کرنا شروع کر چکا ہو
ملاحظہ ہو علامہ کمال الدین دمیری کی حیٰوۃ الحیوان جلد اول صفحہ 197 مطبوعہ مصر۔
اگر چہ یہ علم آنحضرت (ص)کی تشریف آوری سے قبل کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ان الواح سے ماخوذ تھا جن کا ذکر قرآن کریم کی سورہ اعراف آیت نمبر 145 تا 150 میں آیا ہے ۔ جیسا کہ علامہ عباس قمی محدث نے سفینۃ البحار جلد اول میں فرمایا ہے مگر چونکہ سب سے پہلے آنحضرت (ص) نے خود اس علم کو بکری کی کھال پر املا کرایا اسی وجہ سے یہ علم الجفر کے نام سے مشہور ہوا۔
حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم (ع) نے ارشاد فرمایا کہ حضور(ص) اپنے آخری ایام حیات ظاہری میں حضرت علی(ع) کو ساتھ لے کر کوہ احد پر تشریف لے گئے اور مطابق حکم وحی پہاڑی بکریوں کو صدا دی جو آنحضرت (ص)کی صدا پر لبیک کرتے ہوئے وہاں جمع ہوئیں ۔ حضرت علی (ع) نے ان میں سے ایک چار ماہ کی بکری کے بچے کو پکڑا اور بحکم نبی(ص) ذبح کرکے اس کی کھال کو صاف کرکے تیار کیا اور جبرائیل(ع) امین قلم دوات اور ایسی سیاہی لائے جو زمین کی بنی ہوئی نہ تھی اور فرمایا:۔
بکری کی اس کھال اور سیاہی کی تحریر کو زمین کی مٹی کبھی پرانا نہ کر سکے گی نہ حروف کو مٹا سکے گی۔ سیاہی کا رنگ سبز تھا آنحضرت (ص) پر جبرائیل (ع) وحی لاتے تھے اور آنحضرت (ص) حضرت علی (ع) کو لکھواتے جاتے تھے یہ مخصوص وحی قیامت کے آنے والے تمام حالات و واقعات ظاہری و باطنی تغیرات اور اولیاء اللہ ، سادات، وغیرہ کے ساتھ پیش آنے والے حوادث اور آنے والی حکومتوں کے بارے میں تھی ۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ کتاب الجفر کے مضامین حروف ابجد کی صورت میں تھے اور حضرت امام حسن مجتبی(ع) نے اس میں سے حروف الف با سین لام تا آخر پڑھ کر سنوائے اور فرمایا ہر ہر حرف میں سے ایک ایک حرف کا استخراج ہوتا ہے اور علم جفر میں سے جو حصہ لوگوں تک پہنچا وہ صرف ان دو حرفوں کے متعلق ہے جو اس کتاب میں ہے (کتاب الاختصاص)۔
نیز امام نے فرمایا پورے علم جفر پر عبور نبی(ص) یا وصی نبی(ص)کے علاوہ کسی عام فرد کو حاصل نہیں ہو سکتا۔
امام مذکور نے مزید فرمایا کتاب الجفر اگرچہ شرح و بسط کے لحاظ سے اس قدر تفصیلی ہے کہ اس میں ہر شخص کی موت و حیات، مصائب اور ابتلا کا ذکر ہے مگر حجم کے لحاظ سے یہ ایک مختصر سا صحیفہ تھا جس کو جناب امیر المومنین (ع) اپنی تلوار ذو الفقار کے دستہ سے باندھے رہتے تھے ۔
کتاب الجفر مذکور جو جناب امیر المومنین علی (ع) کے دست مبارت سے نوشتہ تھی بعد میں امام جعفر صادق (ع) نے بھی اس کو بصورت کتاب اپنے دست مبارک سے نقل فرمایا اس کی صحت و حقانیت کو اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے مشاہیر ، علما و محققین نے تسلیم کیا ہے کہ یہ کتاب پشت بہ پشت ، نسل در نسل سادات عظام میں منتقل ہوتی رہی ہے ۔
ابن خلدون اندلسی مغربی نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ کتاب الجفر کو ہارون بن سعید عجلی نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کیا ہے اس میں عموماً اہل بیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حوادت کا تفصیلی حال مذکور تھا "۔
تاریخ عصر جعفری صفحہ 74 میں ہے کہ کتاب الجفر مغرب اقصٰی کے خاندان بنی عبد المومن کے پاس اب تک محفوظ ہے ادھر ترکی کے سلطان سلیم عثمانی اول کا دعویٰ تھا کہ اصل کتاب الجفر امام جعفر صادق (ع) کا نسخہ انھوں نے مصر سے تلاش کروالیا اور اپنے کتب خانہ میں محفوظ کر لیا تھا ۔ جبکہ روایات ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق
کتاب الجفر امام زمانہ (ع) کے پاس محفوظ ہے ۔
ابن خلکان نے تاریخ دخیاط الاعیان میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) کے ایک شاگرد ابو موسیٰ جابر بن حیّان نے ایک کتاب الجفر الاسود لکھی جو امام علیہ السلام کے علم جفر کے بارے میں بتلائے ہوئے اسباق و تقاریر کا مجموعہ ہے یہ کتاب ایک ہزار اوراق پر مشتمل ہے ۔
دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں امام نے جابر بن حیان کو علم الحروف میں کیمیا گری کے اصول و ضوابط املا کرانے اور الجفر الاسود سے یہی مراد ہے جبکہ جفر ابیض اور جفر احمر کے نام سے امام کی دیگر کتب کا تذکرہ علاحدہ ہے جابر بن حیان علم کیمیا میں بڑے زبردست مشتاق تھے ۔
علم الجفر کی صداقت و وثاقت
اگر جفار غلطی نہ کرے اور کسی مصلحت کے پیش نظر نتیجہ پر کوئی گرہ نہ لگائے تو علم الجفر سے بالکل صحیح اور صاف و شفاف جواب آتا ہے ۔ علامہ عبد اللہ الجزائری فرماتے ہیں کہ علم جفر صحیح نتیجہ دینے میں علم نجوم اور علم رمل سے زیادہ قابل اعتماد و اشرف ہے بلکہ قرآن کریم کی حقانیت کا ایک زندہ معجزہ ہے
علامہ سید جعفر بحر العلوم نجفی فرماتے ہیں کہ اگر تم علم جفر کا سوال قرآنی آیت سوالیہ کے مطابق باندھو تو جواب میں وہی آیت آتی ہے جو اس سوالیہ آیت کے جواب میں پہلے سے قرآن میں موجود ہے ۔
مثلاً اگر ہم سورہ یسین کی آیت "بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا” کو سوال بنا دیں تو جواب میں یہی آیت آتی ہے کہ "ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان ہڈیوں کو پہلے سے خلق کیا "۔[2]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ قومی انگریزی اردو لغت، طبع ہفتم، 2008ء، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، پاکستان۔ صفحہ 1098
- ↑ محمد حسن (9 فروری 2012 عیسوی)۔ "علم الجفر تاریخ کے آئینہ میں"۔ روحانی علوم ڈاٹ کام۔ Roohanialoom۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 فروری 2012 عیسوی