علم الناسخ والمنسوخ
ناسخ اور منسوخ لغت میں کسی چیز کو مٹانا، تبدیل کرنا، ایک مقام سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرنے کا نام ہے۔ [1] علم حدیث میں اس سے مراد حدیث کا وہ خاص شعبۂ علم ہے جس میں روایات یا احادیث پر اس حوالے سے بحث کی جاتی ہے کہ کون سی حدیث منسوخ ہے اور کون سی ناسخ ہے اور کن علل و اسباب اور مصالح کے باعث کوئی بھی حدیث ناسخ یا منسوخ ہے
نسخ فی القرآن کے لیے منسوخہ آیت کا امر یا نہی کا ھونا ضروری ہے جملہ خبریہ میں نسخ نہیں ھوگا
متقدمیں اور متأخرین کے نزدیک نسخ کی تعریف کے اختلاف سے منسوخہ آیات کی تعداد میں کمی بیشی اور نسخ فی القرآن و عدم نسخ پہ بھی بھاری اختلاف واقع ھوا ہے
نسخ کی تعریف
ترمیملغوی اعتبار سے نسخ کے دو معانی ہیں۔ ایک تو "ازالہ" ہے یعنی کسی چیز کو زائل کرنا جیسے سورج نے سائے کو زائل کر دیا۔ دوسرا معنی ہے کسی چیز کو نقل کرنا جیسا کہ اگر کسی کتاب میں سے کوئی بات نقل کی جائے تو کہا جائے گا کہ میں نے کتاب کو نسخ کر دیا ہے۔ ناسخ، منسوخ کو زائل کر دیتا ہے یا پھر اسے منتقل کر دیتا ہے اصطلاحی مفہوم میں شریعت کے ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم جاری کرنے کا نام 'نسخ' ہے۔کیونکہ بعض احکامات کا تعلق مخصوص صورت حال سے ہوا کرتا ہے۔ جب وہ مخصوص صورت حال ختم ہو جاتی ہے تو اس کا حکم بھی باقی نہیں رہا کرتا
ناسخ اور منسوخ کے مشہور ماہرین
ترمیمحدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم مشکل ترین مہم ہے۔ زہری کہتے ہیں، "حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرنے کی کوشش نے اہل علم کو تھکا دیا ہے۔" اس علم کے سب سے مشہور ماہر امام شافعی ہیں۔ وہ اس کام میں ید طولی رکھتے تھے اور دوسروں کی نسبت اس میدان میں بہت آگے تھے۔ امام شافعی جب مصر چلے گئے تو امام احمد بن حنبل نے ابن وارہ سے کہا، "کیا آپ نے شافعی کی کتب لکھ رکھی ہیں؟" انھوں نے کہا، "جی نہیں۔" امام احمد کہنے لگے، "یہ تو آپ نے بڑی غلطی کی۔ ہم میں سے کوئی مجمل و مفسر اور حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا تھا۔ جب ہم امام شافعی کے ساتھ بیٹھنے لگے تو ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوئیں۔"
ناسخ و منسوخ پر کتابیں
ترمیماس فن پر مشتمل کتابوں کے نام یہ ہیں:علم الناسخ و المنسوخ پر لکھی جانے والی چند اہم تصانیف میں امام احمد بن حنبل کی کتاب ‘‘الناسخ والمنسوخ’’ اور ابو بکر محمد بن موسی الحازمی (584ھ) کی ‘‘الاعتبارفی بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار’’ نہایت اہم ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ الجامع لاحکام القرآن القرطبی،البقرہ تحت اٰیہ رقم:106