علم لدنی کو علم وہبی، عطائی اورعلم ربانی کہا جاتا ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے خود بخود قلب میں من جانب اللہ آتا ہو۔
قرآن میں ہے
اٰتَٰینہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْماً۔( القرآن 18/ 65 ) (تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا) جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا۔
علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں "یہ آیت علم لدنی کے اثبات میں اصل ہے۔ علم لدنی کو علم الحقیقتہ اور علم الباطن بھی کہتے ہیں۔[1] حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں۔
والعلم اللدنی وھو الذی لا واسطۃ فی حصولہ بین النفس وبین الباری وانما ھو کالضوء من سراج الغیب یقع علی قلب صاف فارغ لطیف (کذا فی الرسالۃ اللدنیہ ص 28) علم لدنی وہ ہے جس کے حصول میں نفس اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو، علم لدنی بمنزلہ روشنی کے ہے کہ سراج غیب سے قلب صاف وشفاف پر واقع ہوتی ہے۔[2]
صوفیائے کرام کی اصطلاح میں ایسے ہی علم کو علم لدنی کہتے ہیں جس میں اسباب ظاہری کا دخل اور واسطہ نہ ہو اور عالم غیب سے براہ راست علم اس کے قلب میں داخل ہو ملائکہ پر جو منجانب اللہ علوم فائض ہوتے ہیں وہ اسی قسم کے ہوتے ہیں قلب میں عام طور پر جو علم داخل ہوتا ہیوہ حواس ظاہری کے دروازوں سے داخل ہوتا ہے ایسے علم کو علم حصولی اور علم اکتسابی کہتے ہیں اور جب کسی کے قلب میں کوئی دروازہ عالم ملکوت کی طرف کھل جائے اور بلا ان ظاہری دروازوں کے کوئی علم قلب میں پہنچ جائے تو ایسے علم کو علم لدنی کہتے ہیں جو علم قلب کے باہر کے دروازہ سے داخل اور حاصل ہو وہ علم حصولی ہے اور جو علم قلب کے اندر کسی باطنی دروازہ سے آئے وہ ” علم لدنی“ اور ” علم وہبی“ اور ” علم حضوری“ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خضر (علیہ السلام) کو اسرار غیبی اور باطنی حکمتوں اور مصلحتوں کا علم عطا فرمایا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام شریعت کا علم عطا فرمایا تھا[3]
علم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کے ادراک کا نام ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، افعال اور اس کے احکام کی ہدایت حاصل ہوتی ہے، اگر یہ علم کسی بشر کے واسطے سے حاصل ہو تو کسبی ہے اور اگر بلاواسطہ حاصل ہو تو علم لدنی ہے۔ علم لدنی کی تین قسمیں ہیں : وحی، الہام اور فراست[4] اولیاء کا علم حضوری بلکہ حضور سے بھی زیادہ کاشف۔ جس کو علم لدنی کہا جاتا ہے اور جس کا تعلق اللہ کی ذات و صفات سے ہوتا ہے تو اس میں خطا کا امکان نہیں ہوتا ہے وہ وجدانی اور قطعی ہوتا ہے بلکہ اس علم کا درجہ عام قطعی علوم سے اونچا ہوتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی ذات کا علم حضوری و وجدانی ہوتا ہے کیونکہ خود ہی عالم ہے اور خود ہی معلوم۔ اپنی ذات کو جاننے کے لیے کسی تصور کی ضرورت نہیں پڑتی اور اللہ کی ذات سے تعلق رکھنے والے صوفی کا وجدانی علم اس سے بھی بالاتر ہوتا ہے۔ اللہ تو آدمی سے اتنا قریب ہے کہ وہ خود بھی اپنی ذات سے اتنا قرب نہیں رکھتا۔ اللہ نے فرمایا ہے : نحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرون۔ یعنی ہم تم سے اتنا قرب رکھتے ہیں کہ تم خود اپنے سے اتنا قرب نہیں رکھتے‘ مگر اے عوامی نظر رکھنے والو! ہم تم کو نظر نہیں آتے۔ پس یہ لدنی علم اولیاء کو پیغمبروں کے توسل سے حاصل ہوتا ہے اگرچہ پیغمبر تک پہنچنے کے درمیانی وسائل کتنے ہی زیادہ ہوں۔[5]

*وحی

اللہ تعالی کا کلام مع الفاظ و معانی بواسطہ جبریل علیہ السلام قلب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے تو وہ وحی اور قرآن کہلاتا ہے۔

اگر بغیر واسطہ جبریل علیہ السلام کے صرف معانی کا القاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر ہوتا ہے وہ ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم.

اور کبھی بغیر واسطہ حضرت جبریل علیہ السلام کے دیدار باری تعالی کے حصول پر علم عطا ہوا ہے۔

جسے رب تعالی نے:

فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہ مَآ اَوْحٰی(القرآن پ27 ,النجم,آیت10)

"اپنے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی."

سے تعبیر فرمایا.

*الہام

الہام کا لغوی معنی ہے پہنچانا

الہام وہ علم حق ہے جو اللہ تعالی غیبی طور پر اپنے بندوں کے دلوں پر القاء کرتا ہے۔

جس طرح رب تعالی نے فرمایا:

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَقْذِفُ بِالْحَقِّ(القرآن پ22,سبا,آیت48)

"فرما دیجیے! بے شک میرا رب حق(دلوں پر) القاء کرتا ہے."

*فراست

فراست اس علم کو کہتے ہیں جو صورتوں کے آثار و علامت کو عقلمندی سے دیکھنے کی وجہ سے غیبی طور پر حاصل ہوتا ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

"اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ"

مومن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.(الحدیث, مفہوما)

*الہام اور فراست دونوں سے ہی غیبی چیزوں پر اطلاع حاصل ہوتی ہے۔

لیکن فراست میں کچھ چیزوں کی صورتوں کی علامات سے وہ علم حاصل ہوتا ہے

اور الہام میں یہ واسطہ نہیں ہوتا بلکہ قدرتی طور پر اللہ تعالی کی طرف سے فیضان ہوتا ہے۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب

حوالہ جات

ترمیم
  1. (روح المعانی،مطبوعہ دارالفکر بیروت،
  2. تفسیر معارف القرآن ،ادریس کاندہلوی،الشوری،آیت 51
  3. تفسیر معارف القرآن ،ادریس کاندہلوی الکہف،60
  4. تفسیر تبیان القرآن ،غلام رسول سعیدی،الزمر،8 بحوالہ مرقاۃ
  5. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی سورہ الجن،آیت 27