علم قرأت​ وہ علم جس سے قرآن مجید کو صحیح پڑھا جائے اور غلطیوں سے بچا جائے۔

لغت میں

ترمیم

قرأت کی جمع قرأات ہے۔ اور یہ قَرَأَ یَقْرَأُ سے مصدر ہے۔ قُرئٌ عربی میں جمع کرنا اور اکٹھا کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسے:
قَرَأتُ الْمَائَ فِی الْحَوْضِ۔
میں نے حوض میں پانی جمع کر لیا۔ قِرأت نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ قاری ایک حرف کو حرف کے ساتھ جمع کرتا ہے جو کلمہ بن جاتا ہے اور کلمہ کلمہ کو اکٹھا کر کے جملہ بنا دیتا ہے اور جملہ جملے کے ساتھ وہ پڑھتا ہے۔ اس طرح وہ سب کو جمع کر لیتا ہے۔ قِرأت کا مطلب : پڑھنے کی کیفیت ہے۔

قرأت اور علم القرأت میں فرق

ترمیم

قرأت: قراء سبعہ وقراء عشرہ میں جو بھی قرآن کریم کے نطق کے طریقے اور مسلک کا قائل ہوتا ہے اور دوسرے اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتے۔ بشرطیکہ اس کی طرف منسوب تمام روایات متفقہ ہوں۔ اسے قرأت کہتے ہیں۔ یہ اختلاف، نطق حروف یا نطق ہیئت میں ہو سکتا ہے۔ اس کے مزید یہ نام بھی ہیں: روایت، طریق اور وجہ۔

روایت

ترمیم

ائمہ قراء میں کسی امام سے لینے والے کی طرف یہ قرأت منسوب ہوتی ہے خواہ وہ اسے کسی واسطہ سے حاصل کرے۔

طریق

ترمیم

جو راوی سے لینے والے کی طرف منسوب ہو خواہ اس کی سند نازل ہی کیوں نہ ہو۔

جوقراء میں سے کسی قاری کے انتخاب کی طرف منسوب وہ قرأت ہو جس پر وہ خود قائم ہو اور اس سے وہ قرأت لی جاتی ہو۔

علم القرأت

ترمیم

علما قرآن کی اصطلاح میں وہ علم ہے جو قرآن کے الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت اور اس میں اتفاقی و اختلافی صورت کو بیان کرے اور اس کے راوی کی طرف اسے منسوب کیا جائے۔ 1۔ الفاظ قرآن کی کیفیت ادائیگی، خواہ اس کیفیت ادائیگی میں ناقل یعنی قراء حضرات کا اختلاف ہو یا اتفاق۔ 2۔ ائمہ قراء سے اس کی نقل وروایت صحیح ہو جو متصل صحیح سند کے ساتھ رسول اکرم ﷺ سے لی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرأت میں یہ اہم شرط ہے کہ اسے کتا بوں کی بجا ئے بالمُشافہ اہل علم سے لیا جائے۔

موضوع

ترمیم

علم القرأ ت کا موضوع کلمات قرآنیہ ہیں۔ اس علم میں دو باتیں زیر بحث آتی ہے۔ ایک یہ کہ کن کلمات قرآنی کوکس طرح پڑھا گیا اور دوسرا یہ کہ آپ ﷺ نے ازروئے وحی کس فرق کی ا جازت دی۔

اس کا سیکھنا سکھانا فرض کفایہ ہے۔ تاکہ قرأۃ قرآن میں نطق کی غلطیوں سے بچا جا سکے اور تحریف و تبدیلی سے بھی قرآن کریم کو بچایا جا سکے۔ یہ بھی علم ہو کہ اسے قراء حضرات نے مختلف قرأتوں میں کیسے پڑھا اور روایت کیا ہے۔