قراء سبعہ
قراء سبعہ یا سات قراء ان قراء کو کہا جاتا ہے جن سے قرآن کریم کی قراءت کے سلسلہ میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں، ان روایتوں میں بعض جگہوں پر کلمات، اعراب (زبر، زیر، پیش) وغیرہ کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ علوم قرآن کی متدوال کتابوں میں ان قراء کے نام اس طرح درج ہیں: عبد اللہ بن عامر، ابن کثیر المکی، عاصم بن بہدلہ کوفی، ابو عمرو بصری، حمزہ کوفی، نافع مدنی اور کسائی کوفی۔[1] یہ تمام اصحاب طبقات قراء کے تیسرے طبقہ میں آتے ہیں۔
نیز مزید تین قراء ہیں جن کی قراءتیں بھی قابل اعتماد ہیں لیکن مذکورہ قراء سبعہ سے درجہ اعتماد کچھ کم ہے، تین قراء کے نام یہ ہیں: خلف بن ہشام بزار، یعقوب بن اسحاق اور یزید بن قعقاعانھیں ائمہ ثلاثہ قرأت کہا جاتا ہے پہلے سات اور ان تینوں کواکٹھے قراء عشرہ کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان دس قراءتوں کے علاوہ مزید قراءتیں بھی موجود ہیں جو دیگر قراء سے مروی ہیں لیکن یہ شاذ قراءتیں کہلاتی ہیں۔[2][3]
اسماء قراء
ترمیمقراء سبعہ
ترمیمقراء سبعہ کے نام حسب ذیل ہیں:[4]
- عبد اللہ بن کثیر داری مکی، ان سے روایت کرنے والے قنبل اور بزی ہیں۔
- عبد اللہ بن عامر یحصبی شامی، ان سے روایت کرنے والے ہشام اور ابن ذکوان ہیں۔
- عاصم بن ابی النجود اسدی کوفی، ان سے روایت کرنے والے ابو بکر شعبہ بن عیاض اور حفص ہیں اور انہی کی قراءت زیادہ رائج ہے۔
- ابو عمرو بن علاء بصری، ان سے روایت کرنے والے دوری اور شوشی ہیں۔
- حمزہ بن حبیب الزیات کوفی، ان سے روایت کرنے والے خلف و خلاد ہیں۔
- نافع بن عبد الرحمن بن ابی نعیم مدنی، ان سے روایت کرنے والے قالون اور ورش ہیں۔
- ابو الحسن علی بن حمزہ کسائی نحوی کوفی، ان سے روایت کرنے والے دوری اور ابو الحارث ہیں۔
ان سات قراء میں پانچ قراء ایران نژاد ہیں جبکہ بقیہ دو قراء اہل عرب سے ہیں۔
قراء عشرہ
ترمیمان سات قراء کے علاوہ مزید تین قراء کی روایتیں بھی صحیح اور متواتر سمجھی جاتی ہیں، ان سب کو قراء عشرہ کہا جاتا ہے ان کے نام حسب ذیل ہیں:
- ابو جعفر یزید بن القعقاع (متوفی 132ھ)
- یعقوب بن اسحاق الحضرمی (متوفی 185ھ)
- خلف بن ہشام (متوفی 229ھ)
تواتر
ترمیماہل سنت
ترمیممذکورہ سات قراءتوں کے متعلق اہل علم کے یہاں اختلاف ہے۔ علما اہل سنت کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ یہ سات قراءتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں، یہ موقف سب سے زیادہ مشہور اور رائج ہے۔ چناں چہ سبکی کے نزدیک یہ دس قراءتیں متواتر ہیں، جبکہ بعض افراد نے انتہائی غلو سے کام لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سات قراءتوں کو متواتر نہ کہنا کفر ہے۔ اس رائے کا انتساب مفتی اندلس ابو سعید فرج بن لب کی جانب کیا جاتا ہے۔[5]
اہل تشیع
ترمیماہل تشیع کا معروف موقف یہ ہے کہ یہ قراءتیں غیر متواتر ہیں۔[5]
اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ قرآن کریم کا تواتر اور قرآن کی قراءتوں کا تواتر دونوں مختلف چیزیں ہیں، قرآن کریم کا تواتر تمام مسلمانوں کے نزدیک تسلیم شدہ اور غیر اختلافی مسئلہ ہے اور ممکن ہے جن اصحاب نے تواتر قراءات کا موقف اختیار کیا ہے ان کے سامنے یہی بات رہی ہو۔ نیز علما و محدثین نے قرآن کریم کو متواتر ثابت کرنے کے لیے جن دلائل کو پیش کیا ہے، ان کے ذریعہ قراءتوں کا تواتر نہیں ثابت کیا جا سکتا۔