فرض کفایہ:جس میں عامل کی بجائے عمل مطلوب ہوتا ہے، اگر کسی کے جانب سے یہ فرض ادا ہو جائے تو سب کے ذمہ سے عمل کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ جیسے: نماز جنازہ، امر بالمعروف، علوم شرعیہ کا حصول وغیرہ۔

فرض کفایہ کے معنی

ترمیم

فرض کفایہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ قوم کے چند افراد یا کسی جماعت نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تو دوسرے مسلمان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور اگر کسی نے بھی نہ کیا تو سب گنہگار ہوتے ہیں[1]
اگر دشمنان دین مسلمانوں پر چڑھائی کریں تو مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ بشرطیکہ جملہ شرائط جہاد جو فقہ میں مذکور ہیں پائی جائیں۔[2]

فرض کفایہ اور فرض عین میں فرق

ترمیم

جہاد فی سبیل اللہ، عام حالات میں فرض کفایہ ہے اگر ایک جماعت اس فرض کو انجام دے رہی ہے تو دوسروں کو اجازت ہے کہ وہ دیگر کاموں میں دینی خدمت انجام دیں، البتہ اگر کسی وقت امام المسلمین ضروری سمجھ کر اعلان عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکت جہاد کی دعوت دے تو پھر سب پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے قرآن کریم نے سورۂ توبہ میں ارشاد فرمایا : ’’ یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ‘‘ اے مسلمانو ! تمھیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل ہوجاتے ہو۔ اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے، اسی طرح اگر خدانخوستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی مملک پر حملہ آور ہوں اورمدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو اس کے پاس والے مسلمانوں پر یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہاء و محدثین نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
مسئلہ : اسی لیے جب تک جہاد فرض کفایہ ہو تو اولاد کو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں۔
مسئلہ : جس شخص کے ذمہ قرض ہو اس کے لیے جب تک قرض ادا نہ کر دے فرض کفایہ میں حصہ لینا جائز نہیں، البتہ اگر نفیر عام کی وجہ سے جہاد فرض عین ہو جائے تو پھر کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی۔[3]
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جہاد نفس کو فرض عینی اور جہاد کفار کو فرض کفایہ قرار دیا ہے۔[4]
شریعت نے حج اور روزہ اور زکوٰۃ اور عدت وغیرہ کا مدار قمری حساب پر رکھا ہے حج اور زکوٰۃ میں قمری حساب کا اعتبار ہے شمسی حساب کا اعتبار نہیں شریعت میں مہینہ اور سال قمری ہی معتبر ہے اور اس کا استعمال مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ ہے اگرچہ دنیوی معاملات میں شمسی حساب کا استعمال جائز ہے لیکن اگر سب کے سب قمری حساب کوترک کر دیں تو گناہ گار ہوں گے جیسا کہ فرض علی الکفایہ کا حکم ہے۔[5]
اگر کوئی دوسرا گواہ نہ ہو تو شہادت دینا اس گواہ کے لیے فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ ہے[6]
و لتکن منکم امۃ اور تم میں سے بعض لوگوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے من تبعیضیہ ہے کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے ہر شخص پر فرض نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ امر ونہی کے لیے علم شریعت اور احتساب کی قدرت ضروری ہے (اور یہ بات سب لوگوں میں نہیں ہو سکتی بعض میں ہوتی ہے) آیت میں خطاب اہل اسلام کی پوری جماعت کو ہے مگر مکلف بعض کو کیا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اس فرض کو انجام نہ دے گا تو فرض جماعت ادا نہ ہوگا اور سب گناہگار ہوں گے (کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جماعت کا فرض ہے) اور اگر بعض نے کر لیا تو سب کے سر سے قرض ادا ہو جائے گا من بیانیہ بھی ہو سکتا ہے اس وقت ہر شخص پر ممنوع امر سے باز داشت کرنی لازم ہوگی (خواہ ہاتھ سے ہو یا زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو) کم سے کم دل سے ہی اس فعل سے نفرت ہو۔[7]
ابتدا میں سَلَامٌ عَلَیْکَ کرنا سنت کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے بھی سلام کر لیا تو کافی ہے اگر نہ کیا تو ایک سنت کا ترک ہوا اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت میں سے ایک شخص نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے فرض ادا ہو گیا۔ ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع ،المائدہ،12
  2. تفسیر عثمانی مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی،سورۃ البقرہ،آیت216
  3. تفسیر جلالین،جلال الدین سیوطی ،سورۃ البقرہ،آیت217
  4. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی ،سورۃ النساء،77
  5. تفسیر معارف القرآن مولاناادریس کاندہلوی،سورۃ البقرہ،آیت189
  6. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی ،سورۃ البقرہ۔ آیت282
  7. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی،آل عمران ،آیت 104
  8. تفسیر احسن التفاسیر۔ حافظ محمد سید احمد حسن،النساء،86