علی خان پاک فوج میں عمید کے عہدہ تک تعینات رہا۔ 2011ء میں اسے ممنوع جماعت حزب التحریر سے روابط کے الزام میں فوج نے گرفتار کر لیا۔[1] اس کے وکیل کا کہنا ہے کہ علی خان کی گرفتاری انتقامی کارروائی ہے کیونکہ علی خان نے فوجی اجلاس میں منصبِ جامع پر تنقید کی تھی۔ پرویز مشرف کے دور سے علی خان پاکستان اور فوج کی امریکی اطاعت پر نکتہ چینی کرتا رہا۔[2] علی خان کے والد نے خدشہ ظاہر کیا کہ علی خان کو قید میں قتل کر دیا جائے گا جبکہ اطلاعات کے مطابق فوج اس پر شدت پسند تنظیموں سے رابط پر مقدمہ شروع کر رہی ہے۔[3]

مقدمہ

ترمیم

فرد جرم میں دعوی کیا گیا کہ علی خان افسران کو بغاوت پر اکسا رہا تھا۔[4] مقدمہ کی سماعت سیالکوٹ کی فوجی عدالت میں شروع ہوئی۔ کچھ فوجیوں نے گواہی دی کہ علی خان کا منصوبہ فوج کی اعلی قیادت کو قتل کر ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ سماعت کے دوران خرابی صحت کی وجہ سے علی خان کو راولپنڈی شفاخانہ منتقل کر دیا گیا اور سماعت معطل ہو گئی۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Brigadier held for links with CIA-backed militants"۔ دی نیشن۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2011 
  2. آصف فاروقی۔ "فوج میں امریکہ مخالف جذبات کے نمائندے"۔ بی بی سی موقع۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2011 
  3. "بریگیڈئیر علی کے والد کو بیٹے کے قتل کا خدشہ"۔ بی بی سی موقع۔ 13 فروری 2012ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. "'بریگیڈیئر علی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے تھے'"۔ بی بی سی موقع۔ 15 فروری 2012ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. "Brig Khan shifted to Rawalpindi over health concerns"۔ ڈان۔ 10 مارچ2012ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ