عمیر بن سعد صحابہ میں فضل و کمال کے لحاظ سے ممتاز سمجھے جاتے تھے۔

عمیر بن سعد
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب نسیج وحدہ

نام ونسب ترمیم

عمیر نام، نسیج وحدہ لقب، سلسلۂ نسب یہ ہے، عمیر بن سعد بن عبید بن نعمان بن قیس بن عمرو بن عوف باپ جن کا نام سعد بن عبید تھا، عمیرکی صغر سنی میں انتقال کیا ،ماں نے جلاس بن سوید سے نکاح کر لیا، عمیربھی اپنی ماں کے ساتھ جلاس کی زیر تربیت رہے،جلاس نے نہایت ناز و نعمت کے ساتھ حقیقی اولاد کی طرح پرورش کی ۔

نسیج وحدہ کی وجہ تسمیہ ترمیم

عمر فاروق کہا کرتے تھے "کاش! مجھ کو عمیرجیسے چند آدمی مل جاتے تو امور خلافت میں بڑی مدد ملتی" عمر ان کی قابلیت پر تعجب کرتے تھے، نسیج وحدہ(یکتا ویگانہ) کا لقب اسی حیرت انگیز لیاقت کی وجہ سے دیا تھا۔

وضاحت ترمیم

سعد بن عبید کے نام سے مورخین نے دھوکا کھایا،ابوزید جو انصار کے ان چار قاریوں میں جن کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے، ان کا نام نامی بھی سعد بن عبید تھا، اس بنا پر لوگوں نے عمیر کو ان کا فرزند تصور کر لیا، لیکن یہ سخت غلطی ہے زمانہ اور سنین وفات کے فرق کے علاوہ صاف بات یہ ہے کہ عمیرکے والد قبیلہ اوس سے تھے اور ابو زید جیسا کہ انس نے تصریح کی ہے، ان کے رشتہ کے چچا ہوتے تھے،ظاہر ہے کہ انس قبیلہ خزرج سے تھے، اس لیے ابو زید قبیلہ اوس سے کیونکر ہو سکتے ہیں۔

اسلام ترمیم

جلاس مسلمان ہو گئے تھے، یہ بھی غالباً اسی زمانہ میں اسلام لائے۔

غزوات ترمیم

اگرچہ کم سن تھے ،تاہم جلاس کے ہمراہ جہاد میں جاتے تھے، غزوہ تبوک کی ہمراہی کا واضح طور پر ذکر آیا ہے،لیکن وہ کسی غزوہ میں شرکت کا شرف نہ حاصل کرسکے اور درحقیقت وہ کم عمری کی وجہ سے اس قابل بھی نہ تھے۔ فتوحات شام میں البتہ حصہ لیا اور عمر فاروق نے ان کو شام کے ایک لشکر کا افسر بنایا کچھ دنوں کے بعد حمص کے حاکم مقرر ہوئے اور عمر کی وفات تک اسی منصب پر سرفراز رہے۔

وفات ترمیم

حمص میں انھوں نے مستقل اقامت اختیار کرلی تھی؛چنانچہ ابن سعد کے خیال کے مطابق امیر معاویہ کے عہد حکومت میں یہیں فوت بھی ہوئے۔[1]

تائید میں قرآن ترمیم

غزوہ تبوک میں جبکہ نہایت خورد سال تھے اورجہاد میں محض تماشائی کی حیثیت رکھتے تھے ،جلاس نے ایک موقع پر کہا کہ "اگر محمد ﷺ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بد تر ہیں" تو عمیر نے بلا کسی خیال کے فوار اًجواب دیا کہ وہ ضرور سچے ہیں اور تم یقیناً گدھوں سے بد تر ہو" جلاس کو سخت ناگوار گذرا اور انھوں نے عہد کر لیا کہ اب عمیرؓ کی کفالت سے قطع تعلق کر لیں گے۔ عمیر نے جلاس کو جواب دے کر آنحضرتﷺ کو بھی خبر کردی کہ اس کے چھپانے میں حبط اعمال اور قرآن نازل ہونے کا خوف تھا، آنحضرتﷺ نے عمیر اور جلاس کو بلا کر واقعہ پوچھا، جلاس نے قطعی انکار کیا، لیکن وحی والہام کی دسترس سے کب کوئی چیز باہر رہ سکتی تھی؛ چنانچہ عمیر کی اس سے تائید ہوئی ،آنحضرتﷺ نے سر اٹھا کر یہ آیت پڑھی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔ (التوبہ:74)

یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انھوں نے فلاں بات نہیں کہی ؛حالانکہ انھوں نے کفر کی بات کہی ہے اور اپنے اسلام لانے کے بعد انھوں نے کفر اختیار کیا ہے، انھوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور انھوں نہ صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے مال دار بنایا ہے، اب اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا اور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی یار ہوگا نہ مددگار۔

جلاس نے بے ساختہ کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اس کے بعد جلاس حقیقی طور پر مسلمان ہو گئے اور پھر کوئی ناگوار طرز عمل اختیار نہیں کیا، توبہ قبول ہونے کی خوشی میں عمیر کی کفالت نہ کرنے کی جو قسم کھائی تھی توڑدی اور پھر ہمیشہ ان کی کفالت کرتے رہے، آیت اترنے پر آنحضرتﷺ نے عمیر کا کان پکڑا اور فرمایا اے لڑکے، تیرے کان نے ٹھیک سنا تھا۔[2]

اولاد ترمیم

حسب ذیل اولاد چھوڑی،عبد الرحمن ،محمد

فضل وکمال ترمیم

صحابہؓ میں فضل و کمال کے لحاظ سے ممتاز سمجھے جاتے تھے،حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے "کاش! مجھ کو عمیرؓ جیسے چند آدمی مل جاتے تو امور خلافت میں بڑی مدد ملتی" حضرت عمرؓ ان کی قابلیت پر تعجب کرتے تھے، نسیج وحدہ(یکتا ویگانہ) کا لقب اسی حیرت انگیز لیاقت کی وجہ سے دیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے تھے کہ عمیرؓ سے بہتر شام میں ایک شخص بھی نہ تھا۔ سلسلۂ روایت میں ان سے چند حدیثیں مروی ہیں جن کے راوی حسب ذیل حضرات ہیں، ابو طلحہ خولانی ،راشد بن سعد، حبیب بن عبید، ابو ادریس خولانی،زبیر بن سالم وغیرہ۔

اخلاق ترمیم

اخلاقی حیثیت سے حضرت عمیرؓ نہایت بلند پایہ تھے،زہد تقویٰ میں ان کا مثل بمشکل مل سکتا تھا، جوش ایمان اور حب رسول کی دولت صغرسنی سے ملی تھی،چنانچہ غزوہ تبوک میں جبکہ نہایت خورد سال تھے اورجہاد میں محض تماشائی کی حیثیت رکھتے تھے ،جلاس نے ایک موقع پر کہا کہ "اگر محمد ﷺ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے بھی بد تر ہیں" تو عمیرؓ نے بلا کسی خیال کے فوار اًجواب دیا کہ وہ ضرور سچے ہیں اور تم یقیناً گدھوں سے بد تر ہو" جلا س کو سخت ناگوار گذرا اورانہوں نے عہد کر لیا کہ اب عمیرؓ کی کفالت سے قطع تعلق کر لیں گے۔ حضرت عمیرؓ نے جلاس کو جواب دے کر آنحضرتﷺ کو بھی خبر کردی کہ اس کے چھپانے میں حبط اعمال اور قرآن نازل ہونے کا خوف تھا، آنحضرتﷺ نے عمیر اورجلاس کو بلا کر واقعہ پوچھا،جلاس نے قطعی انکار کیا، لیکن وحی والہام کی دسترس سے کب کوئی چیز باہر رہ سکتی تھی؛ چنانچہ حضرت عمیرؓ کی اس سے تائید ہوئی ،آنحضرتﷺ نے سر اٹھا کر یہ آیت پڑھی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔ [3] یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انھوں نے فلاں بات نہیں کہی ؛حالانکہ انھوں نے کفر کی بات کہی ہے اور اپنے اسلام لانے کے بعد انھوں نے کفر اختیار کیا ہے، انھوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے اور انھوں نہ صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے مال دار بنایا ہے، اب اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگااور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی یارہوگا نہ مددگار۔ جلاس نے بے ساختہ کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اس کے بعد جلاس حقیقی طور پر مسلمان ہو گئے اور پھر کوئی ناگوار طرز عمل اختیار نہیں کیا، توبہ قبول ہونے کی خوشی میں حضرت عمیرؓ کی کفالت نہ کرنے کی جو قسم کھائی تھی توڑدی اورپھر ہمیشہ ان کی کفالت کرتے رہے،آیت اترنے پر آنحضرتﷺ نے عمیرؓ کا کان پکڑ اور فرمایا لڑکے !تیرے کان نے ٹھیک سنا تھا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. اسدالغابہ، سیر اعلام النبلاء
  2. تفسیر بغوی۔ ابو محمد حسین بن مسعود الفراء بغوی
  3. (التوبہ:74)