التوبہ

قرآن مجید کی 9 ویں سورت

قرآن مجید کی نویں سورت، جو قرآن کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں۔ مدینے میں نازل ہوئی 129 آیات اور 16 رکوع ہیں۔

التوبہ
فائل:Tauba 15 Cent Masahif Script.jpg
التوبہ
دور نزولمدنی
دیگر نامالبراءَۃ
زمانۂ نزول9ھ، غزوۂ تبوک
اعداد و شمار
عددِ سورت9
عددِ پارہ10 اور 11
تعداد آیات129
الفاظ2,506
حروف10,873
گذشتہالانفال
آئندہیونس

نام

یہ سورت دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے البراءَۃ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے اور براءۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے برئ الذمہ ہونے کا اعلان ہے۔

بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ

اس سورت کی ابتدا میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجود مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔

  • ایک رائے یہ ہے جو امام رازی نے لکھی کہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اس کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔
  • دوسری طرف کچھ علما یہ مثال دیتے ہیں کہ اگر کوئی چور بازار میں آ پ سے پرس چرا کہ بھاگ جاتا ہے تو جب آپ اس کو پکڑے گے تو آپ یہ نہیں کہیں کہ ’’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘‘ ،یا یہ بھی نہیں کہے گے کہ ’’السلام وعلیکم ،آپ نے میرا پرس یا بٹوا چرایا ہے اس لیے آپ کو چھوڑوں گا نہیں ‘‘ بلکہ آپ ڈائرکٹ چور سے کہے گے ’’تم نے میرا پرس چورایا ہے میں تجھے چھوڑوں گا نہیں ‘‘، اسی طرح قرآن کے سورۃ التوبہ کے ابتدائی میں بسم اللہ نہیں ہے کیونکہ اللہ ڈائرکٹ کافروں سے مخاطب ہوکر غصے میں وہ وقت یاد دلاتا ہے جب کافروں نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑا تھا۔ یہیں وجہ ہے کہ قرآن کے سورۃ توبہ میں بسم اللہ نہیں۔

زمانۂ نزول و اجزاء سورہ

مزید دیکھیے : التوبہ آیت 128 تا 129

یہ سورت تین تقریروں پر مشتمل ہے :

  • پہلی تقریر آغاز سورت سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے۔ اس کا زمانۂ نزول ذی القعدہ 9ھ یا اس کے لگ بھگ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج مقرر کرکے مکہ روانہ کرچکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے بھیجا تاکہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرزِ عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کر دیں۔
  • دوسری تقریر رکوع 6 کی ابتدا سے رکوع 9 کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب 9ھ یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غزوۂ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سستی و کاہلی کی وجہ سے راہ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے۔
  • تیسری تقریر رکوع 10 سے شروع ہوکر سورت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور یہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اترے اور بعد میں نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اشارۂ الٰہی سے ان سب کو یکجا کرکے ایک سلسلۂ تقریر میں منسلک کر دیا۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلۂ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربطِ میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ، غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ اور اُن صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معافی کا اعلان ہے جو ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے باز رہے تھے۔

نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی اس لیے مصحف کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو پہلے رکھا۔

تاریخی پس منظر

زمانۂ نزول کے تعین کے بعد ہمیں اس سورت کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جس میں سلسلۂ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہو چکا تھا کہ عرب کے تقریباً ایک تہائی حصے میں اسلام ایک منظور سوسائٹی کا دین، ایک مکمل تہذیب و تمدن اور ایک کامل بااختیار ریاست بن گیا تھا۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہو گیا کہ اپنے اثرات نسبتاً زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں چہار طرف پھیلاسکے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ و سورۂ فتح)

اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر متنہی ہوئے۔ ان میں سے ایک تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنت روم سے ۔

عرب کی تسخیر

عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دو سال کے اندر ہی اسلام کا دائرۂ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلے میں بے بس ہو کر رہ گئی۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پرجوش عناصر بازی ہرتی دیکھی تو انھیں یاراے ضبط نہ رہا اور انھوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا۔ وہ اس بندش سے آزاد ہوکر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کرکے رمضان 8ھ میں اسے فتح کر لیا۔ (دیکھیے سورۂ انفال)

اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت حنین کے میدان میں کی جہاں ہوازن، ثقیف، نضر، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لاکر جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہو گیا کہ اسے اب دارالاسلام بن کر رہنا ہے۔ اس واقعے پر پورا ایک سال بھی نہ گذرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہو گیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانے میں پیش آ رہے تھے۔ وہاں جس جرات کے ساتھ نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 30 ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلے پر آنے سے پہلو تہی کرکے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھادی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد آنے شروع ہو گئے اور اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے۔ چنانچہ اس کیفیت میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ

جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہوئی اور تونے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں

غزوۂ تبوک کے بعد

غزوہ تبوک کے موقع پر رومیوں کے میدان جنگ میں نہ آنے کے بعد مسلمانوں کو جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے کہ تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے، آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کریں۔ چنانچہ آپ نے تبوک میں 20 دن ٹھہر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کو زیر اثر رہی تھیں، سلطنت اسلامی کا باجگذار اور تابع امر بنالیا۔ اس سلسلے میں دومۃ الجندل کے مسیحی رئیس اکیدر بن عبد الملک کندی، ایلہ کے مسیحی رئیس یوحن بن رؤبہ اور اسی طرح مقنا، جرباء اور اذرح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کرکے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرۂ روم اب تک عرب کے خلاف استعمال کرتے رہے تھے، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا معاون بن گیا۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں الجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کرلینے کا پورا موقع مل گیا۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیتِ قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے، خواہ و علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیاکہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہوجائیں۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی، وہ اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ اُ اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا۔

مسائل و مباحث

اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم باآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کرسکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورۂ توبہ میں تعرض کیا گیا ہے :

  1. اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آجانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دارالاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی

الف: عرب سے شرک کو قطعاً مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب ہو سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءَت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

ب: کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے ور اس کی تولیت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضے میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کی حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کردینی چاہئیں، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تاکہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودۂ رک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

ج: عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زيادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتادیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ نہیں کیا کرنا چاہیے۔

  1. عرب میں اسلام کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے توا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دینِ حق کا دائرۂ اثر پھیلایا جائے۔ اس معاملے میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سدِ راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدنی نظاموں میں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کی خود مختارانہ فرمانروائی کو بزور شمشیر ختم کردوں تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہوکر رہنا قبول کر لیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انھیں اختیار دیا جا سکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔
  1. تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کے ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کیا جا رہا تھا۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہو گیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھتے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانے میں سویلم کے گھر آگ لگوادی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا۔
  1. مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعفِ عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلے میں، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا، ضعفِ ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلا عذر معقول پیچھے گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرز عمل اور ایمان میں ان کے ناراست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کردی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفرواسلام کی کشمکش ہی وہ اصل کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر نہ ہوگا اور اس پہلو کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی۔

ان امور کو نظر میں رکھ کر سورۂ توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین باآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔