مفتی غلام حسن قادری پاکستان کے معروف اور مقبول ترین قلم کار اور یادگار اسلاف ہیں۔ عوامی حلقوں میں آپ کی کتابوں کی شہرت اس امر پر شاہد ہے۔ آپ نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کم و بیش 15 سال قبل کیا تھا اور اس عرصہ میں آپ کی تعداد کتب 100 تک پہنچ چکی ہے۔ 2004ء میں آپ کی پہلی کتاب "شان مصطفی بہ زبان مصطفی" شائع ہوئی اور اللہ رب العزت نے اس کو وہ قبول عام بخشا کہ برصغیر میں چھپنے والے مذہبی لٹریچر میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد "شرح کلام رضافی نعت المصطفی" یعنی شرح حدائق بخشش کو بھی غیر معمولی پزیرائی حاصل ہوئی اور حدائق بخشش کی شروح میں اسے منفردوممتاز مقام حاصل ہوا۔ ان دونوں عظیم کتابوں کی شہرت کے چرچے پاکستان و ہندوستان سے نکل کر دنیا کے دور دراز خطوں تک پہنچے اور اردو داں طبقے کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ پھر اس کے بعد تقارير و خطبات کی کتب نے خطابت کی دنیا میں ایک نئی روایت قائم کی۔ خطبات حسن (12 جلد)، مواعظ حسن“(2 جلد)، تقریری نکات اور مزید 3 کتب پاکستان اور دیگر ممالک میں اہل سنت کے خطبا و مقررین کے لیے بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ حدیث میں صحاح ستہ، موطا امام مالک، مشکوة شریف (8 جلد) کی تلخیصات اور ان میں خصوصاً عقائد اہل سنت کا بیان اور اہم حوالہ جاتی احادیث کو اردو زبان میں اس طرز پر آپ نے پہلی بار مرتب کیا، یہ کام بھی دراصل واعظین ومقررین تک مستند مواد کی رسائی اور حدیث سے ان کا تعلق مربوط کرنے کے لیے کیا گیا۔ پھر واقعات و حکایات کی ہر تہذیب میں ایک اہمیت ہے، چناں چہ 24 ضخیم مجلدات میں پوری ایک سیریل میں موجود ہے، جن میں واقعات کا ایک جہان آباد ہے اور قاری کو اس موضوع کی دوسری کتب سے کافی حد تک بے نیاز کردیتا ہے۔ صوفیہ کے کلام کی شروحات بالخصوص شرح "کلیات اقبال" نے خطہ پاکستان کے روایتی صوفی حلقوں اور اقبالیات سے دل چسپی رکھنے والوں کی ضرورت کو پورا کیا اور ان میں آپ کی شروح کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اسی طرح تصوف کی 6 امہات کتب کو جدید ترتیب کے ساتھ مرتب کر کے صوفی ادب میں ایک خاطر خواہ اضافہ ہے۔ ان میں سے بیش تر کتب پاکستان بھر میں غیر معمولی عوامی پزیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ متعدد کتب انڈیا سے چھپ کر وہاں بھی اپنا اچھا تعارف رکھتی ہیں۔

مفتی صاحب کی کتب میں نبوت ورسالت کے موضوعات کو زیادہ تر روایتی انداز میں اور بہت کچھ منفرد اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ تحریر میں اعتقادی وفقہی ذوق غالب نظر آتا ہے، معروضی طرز اظہار اپنایا گیا ہے۔ عمومی طور پر روایات کی تحقیق و تنقیح، نظریاتی وفکری موشگافیاں اور ادق علمی مباحث کے بہ جاے بصیرت افروز نکات، واقعاتی و تاثراتی پیرایہ بیان اور عوام الناس کے قابل فہم مضامین جا بہ جا ملتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی کتابوں میں عام ذہن کو ہی مخاطب کیا ہے اور اسی سطح کی سوچ کو بات سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس ساری علمی کاوش کا مقصد وحید عامة الناس کے مقتضیات و اغراض کو پورا کرنا ہے۔ خطابت بھی چوں کہ ایک عوامی محاذ ہے، لہذا خطیبانہ خواص و اوصاف آپ کی تحریروں میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ آپ کا خاص میدان بھی ہے۔

اب تک مفتی صاحب کی 100 کتب مکمل ہو چکی ہیں، جن میں سے بعض زیرطبع ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک متوسط سائز کے تقریباً ٧٠ ہزار صفحات آپ کے قلم سے تحریر کیے جا چکے ہیں۔ بلاشبہہ یہ ایک غیر معمولی کاوش ہے۔ دینی ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔ اردو زبان کی خدمت ہے۔ اہل پاکستان پر احسان ہے۔ بیرون ملک کے اردو خواں طبقے کے لیے خزینہ علمیہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کتابیات حسن پر تحقیقی انداز میں کام کا آغاز کیا جائے، انھیں تنقید کے معیارات پر پرکھا جائے، یونی ورسٹیز اور مدارس میں ان کو ری سرچ کا موضوع بنایا جائے، مضامین اور تحقیقی مقالات کی شکل میں ان کی مختلف جہات پر تجزیاتی مطالعے پیش کیے جائیں، تا کہ یہ قلمی سفر ارتقا کے مراحل طے کرتا ہوا آگے بڑھے اور مذہبی حلقات میں تحقیق و تنقید کا مزاج پروان چڑھے، اورمزید بہتر قلمی کاوشوں کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

حوالہ جات

ترمیم

رضاء الحسن ڈائریکٹر دارالاسلام لاہور ١٣ ربیع الاول ١44١ھ/ ١١ نومبر ٢٠١٩ء