غلام علی شاہ چشتی
سید غلام علی شاہ صاحب ہمدانی جلالپور شریف کے پہلے روحانی بزرگ سید غلام حیدر علی شاہ صاحب جلالپوری کے پہلے خلیفہ تھے۔ مرشد کے حکم پر 1312ھ کو اپنا آبائی گاؤں نارگ سیداں چھوڑ کر میرا کھینگر سے آئے ہوئے غریب لوگوں کے ساتھ ہو لیے جو بعد میں میرا شریف کہلایا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین آپ کے چھوٹے بیٹے سید احمد شاہ ہوئے اور انھوں نے اپنا جانشین اپنی ہی زندگی میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے سید اجمل حسین مبشر ہمدانی کو بنایا۔
سید غلام علی شاہ ہمدانی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | 1857 (1280H) |
وفات | (15 محرام 1922ء) میرا شریف راولپنڈی |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | چشتیہ |
مرتبہ | |
مقام | میرا شریف راولپنڈی |
پیشرو | غلام حیدر شاہ جلالپوری |
جانشین | سید احمد شاہ ہمدانی |
تعارف
ترمیمخواجہ سید غلام علی شاہ ہمدانی سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے روحانی پیشوا تھے۔ آپ کا تعلق سادات ہمدانی سے تھا۔ آپ کے اجداد ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ آپ نے ضلع راولپنڈی کے نواحی علاقہ موضع میراخورد کو رشد و ہدایت کا مرکز بنایا۔ [1]
سلسلہ نسب
ترمیمغلام علی شاہ ہمدانی کا تعلق سادات سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔
- غلام علی شاہ بن سید باغ علی بن سید نواز بن سید گولے شاہ بن سید ولی بن سید محمود بن سید حاجی امین بن سخی شاہ اسحاق نوری بن سید احمد (سلطان بلاول نوری) بن سید اسماعیل بن سید زبیر بن سید نور اللہ بن سید فتح اللہ بن شاہ حسین بن شاہ محمود ہمدانی بن سید جمال الدین حسین بن سید علی (سیاہ پوش) بن سید احمد کبیر الدین بن سید نور الدین کمال بن سید احمد قتال بن سید میر حسن ہمدانی بن میر سید محمد بن میر سید علی (شاہ ہمدان) بن شہاب الدین بن محمد بن علی بن یوسف بن محمد شرف الدین بن محمد محب اللہ بن جعفر بن عبد اللہ بن محمد بن ابو القاسم علی جلا بادی بن ابو محمد حسن بن ابا عبد اللہ حسین بن جعفر المحجہ بن عبید اللہ الاعرج بن حسین الاصغر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم [2]
بیعت و خلافت
ترمیمغلام علی شاہ ہمدانی سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کی عظیم علمی و روحانی شخصیت پیر سید غلام حیدر علی شاہ جلالپوری کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور انہی سے خرقہ خلافت پا کر صاحب ارشاد ہوئے۔
سیرت و کردار
ترمیمغلام علی شاہ چشتی جس طرح ظاہری طور پر حسن و جمال کی دولت سے مالا مال تھے اسی طرح باطنی طور پر بھی روحانیت کے چشمے آپ کے وجود باجود سے پھوٹتے تھے۔ آپ صاحب کشف و کرامت، تقوی و رع، عبادت و ریاضت میں بے مثال اور اخلاق محمدی کی عملی تصور تھے۔ آپ نے تمام عمر شريعت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے دیا۔ آپ نے تمام عمر کسی کی دل آزاری نہ ہونے دی اگر کبھی کسی شخص کی کوئی بات آپ کو ناگوار گزرتی تو بڑی خندہ پیشانی سے سن کر اس کو بڑے شفیق انداز میں سمجھاتے تھے۔ غصے کے وقت آپ کے چہرے کا جلال ناقابل برداشت تھا مگر آپ اس پر فورا قابو پا لیتے تھے۔ نماز پنجگانہ، تہجد، دیگر نوافل اور اوراد و وظا ئف میں کسی قیمت پر کمی نہ آنے دیتے چاہیے سفر ہو یا حضر، غمی ہو یا خوشی آپ نے اپنے معمولات کو ہر حال میں پورا کیا۔ آپ کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ جو کچھ بھی پاس ہوتا وہ لنگر میں دے دیتے یا پھر فقیروں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرما دیتے۔ آپ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی نہیں لوٹا۔
کرامات
ترمیمسید غلام علی شاہ چشتی سے بہت سی کرامات کا صدور ہوا ہے ان میں چند کا ذکر درج ذیل ہے۔
- سید غلام علی شاہ کے ایک مرید خاص صوفی میاں احمد جو فتح جنگ شہر کے رہنے والے تھے۔ ان کے صاحبزادے میاں محمود احمد اپنے والد کی زبانی فرماتے ہیں کہ ایک دن مغرب کی اذان ہوئی تو میرا شیریف کی جامع مسجد میں تمام خدام، عقیدت مندان اور مریدین جمع تھے۔ خواجہ سیدنا علی شاہ نے نماز مغرب کی حسب معمول امامت فرمائی۔ نماز کے تین فرضوں کے بعد سلام پھیرا اور دعا کیے بغیر ہی آپ مصلے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد مسجد سے نکل کر گاؤں سے باہر مین روڈ کی طرف چل دیے۔ مریدین نے عرض کیا حضور ابھی فرض نماز ادا کی گئی ہے مگر آج آپ نے فرضوں کی دعا بھی نہیں کرائی اور بغیر کسی وجہ سے آپ گاؤں سے باہر کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ آپ باہر کی طرف چلتے رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک مقام پر جا کر دیکھا کہ سڑک کی جانب سے ایک نانگا فقیر جسم پر کپڑوں کے بغیر گدھے پر سوار آپ کی طرف آرہا ہے۔ آنے کا انداز یہ تھا کہ گدھے کا منہ گاؤں کی طرف لیکن فقیر کا منہ گاؤں کی مخالف سمت کی جانب تھا۔ جب وہ آپ کے قریب آیا تو بڑی تعظیم سے ہاتھ بڑھایا۔ غلام علی شاہ نے ہاتھ ملا کر فرمایا کہ جا اجازت ہے۔ بس اتنی سی بات ہوئی کہ وہ واپس چلا گیا۔ مریدین اور عقیدت مندان حیران و پریشان تھے کہ بالآخر یہ معاملہ کیا ہے کہ وہ آیا اور آدھے راستے میں ملا اور واپس چلا گیا۔ خواجہ سید علی شاہ بھی واپس مسجد کی طرف چل دیے۔ مریدین کے استفسار پر بتایا کہ فلاں علاقے کا قطب فوت ہو گیا ہے اس کے بعد اب اس کو قطب مقرر فرمایا گیا۔ یہ شخص جانے سے پہلے مجھ سے اجازت لینے آیا تھا۔ میں نے اجازت دے دی۔
- صوفی میاں احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت ہم میرا شریف راولپنڈی سے نکل کر خواجہ علی شاہ کی قیادت میں کھیری مورت موڑ پر جہاں سے پانی کا بھی گذر ہے۔ وہاں پر آٹا والی مشین جس کو علاقائی زبان میں جندر بھی کہتے ہیں۔ وہاں جا کر قیام کیا۔ وہاں جا کر نماز ظہر ادا کی اور بیٹھ گئے۔ اچانک خواجہ غلام علی شاہ کے چہرے کی کیفیت بدل گئی اور سخت اضطراب کی کیفیت نظر آنے لگی۔ ہم سمجھے کہ شاید آپ کی طبیعت خراب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آپ نے آنکھیں بھی بند کر لی ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں آپ نے آنکھیں کھولیں تو تمام حاضرین نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اور چہرہ پانی سے تر بتر تھا۔ عقیدت مندان نے عرض کیا حضور کیا وجہ خاص تھی کہ طبیعت میں اچانک تبدیلی آئی اور اضطراب پیدا ہو گیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا ایک مرید بڑی دور سے اپنے گھر سے گھی لے کر چلا کہ میرا شریف راولپنڈی جا کر پیر صاحب کو پیش کروں گا مگر یہاں سے تھوڑی ہی دور وہ پانی کا نالہ کراس کر رہا تھا کہ اچانک نالہ میں زیادہ پانی آ گیا اور پانی کی لہروں کی نذر ہو کر بہنے لگا تو اس نے آواز دے کر کہا حضور میں تو آپ کے لیے گھی کا برتن لے کر زیارت کے لیے آ رہا تھا کہ اب پانی میں بہہ رہا ہوں یا خواجہ غلام علی شاہ مجھے بچاو۔ جب اس نے پکارا تو میں نے اسے پانی سے نکالنے کے لیے چلا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے میری طبیعت میں اس قدر اضطراب پیدا ہو گیا تھا۔ میاں صوفی احمد صاحب کہتے ہیں کہ ابھی ہم وہیں پر بیٹھے ذکر و فکر میں مشغول تھے کہ ہم نے ایک شخص کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا جس کے سر پر گھی کا برتن تھا اور کپڑے پانی سے بھیگے ہوئے تھے۔ ہم نے اس سے اس کا حال پوچھا تو اس نے پورا واقعہ ایسے ہی بیان کر دیا جیسے خواجہ صاحب بیان کر چکے تھے۔
وصال
ترمیمسید غلام علی شاہ ہمدانی کا وصال 15 محرام 1922ء کو ہوا۔ آپ کا مزار میرا شریف چکری روڈ تحصیل و ضلع راولپنڈی میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کا عرس ہر سال 15 محرم کو عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
اولاد
ترمیمغلام علی شاہ ہمدانی کی تین شادیاں تھیں جن میں سے پہلی سے دو اور تیسری سے باقی ہیں۔
- سید جہان شاہ ہمدانی
- صاحبزادی
- سید فرمان شاہ ہمدانی
- صاحبزادی
- صاحبزادی
- سید احمد شاہ ہمدانی [3]
- سید محمد شاہ ہمدانی
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 248
- ↑ https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1878689185526280&id=1812031532192046
- ↑ تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 248 تا 252