غلام قادر بزدار 1943ء کو موضع سراٹی کوہ سلیمان میں غلام فرید کے ہاں پیداہوئے جو بلوچی زبان کے شاعر تھے انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سراٹی اورہائی اسکول بارتھی سے حاصل کی اور 1961ء کو بی ایم پی میں بھرتی ہوئے اور سپاہی سے ترقی پاکرجمعدارکے عہدے پر 1998ء کوسبکدوش ہوئے انھوں نے ادب کی دنیامیں 1996ء میں قدم رکھا دیکھتے ہی دیکھتے ادبی حلقوں میں چھاگئے انھوں نے ظہوراحمدفاتح (غلام قادر کے اردو شاعری میں استاد تھے)کی مدد سے علی احمدچگھا کی شاعری کواردوزبان میں ترجمہ کرایا جو”کلام چگھا“ کے عنوان سے 1996ء کو شائع ہوا انھوں نے بلوچی ،سرائیکی،اردو اورہندی زبان میں طبع آزمائی کی اورتاریخ ،سیاسیات اور نثر پربھی طبع آزمائی کی ہے ان کی شاعری میں صوفیانہ طرزعمل کارفرماہے اوروہی بلوچی کردار بھی ملیں گے یعنی ان کی شاعری آخلاقیات،مذہب ،قومیت ،بلوچیت اورانسان دوستی پرمبنی ہے ان کی شاعری کی کتابیں توبہت زیادہ ہیں مگرسب سے زیادہ مقبول عام کتاب ”وحش ء تھران “ہیں اوران کی تاریخ پرمبنی سب سے اہم کتابیں ”حان بند“ اور”بزدارتاریخ کے آئینے میں “ہیں لیکن ان کی سب سے اہم کاوش ”شعرائے کوہ سلیمان “کے نظموں اوردستانوں کی اردوزبان میں منتقلی تھی انہون نے بلوچی کہاوتوں اورالفاظ کامجموعہ باالترتیب ”گؤشتین “اور”آموزگاربلوچی “کے عنوان سے شائع کی وہ تقریبا تیتس سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے صرف دوکتابیں ”قیصرنامہ “اور”کوہ سلیمان تاریخ وآثار“طباعت کے مراحل سے نہ گزرسکی اوران کی یہ صفت رہتی دنیاتک یادرکھی جائے گی کہ وہ اپنی کتابیں عوام میں مفت تقسیم کرتے تھے تاکہ عوام میں کتب بینی کارواج عام ہو سکے اسی وجہ سے انھیں ”کوہ سلیمان کاعلمی حاتم“کہاگیا ان کے بارے میں معروف بلوچی شاعراوردانشورساجدبزدارمحروم کہتے ہیں ”ہم اورپوری قوم آپ کامقرو ض اوراحسان مندہے کہ آپ نے ان کی زبان ،معاشرت اورتاریخ کو اپنی تحریروں کے ذریعے زندہ کیا“ ان کی کتاب ”کوہ سارگوہربار“کے بارے میں ظہوراحمدفاتح فرماتے ہیں ”ان کی کتابوں میں ایک زمانہ قید ہے اورایک تہذیب زندہ ہے“ بلوچ دانشوراورمحقق سلطان نعیم قیصرانی نے کہا ”غلام قادرنے تاریخ کے بھولے ہوئے اوراق سے پوری قوم کوروشناس کی اورنئے لکھاریوں کے لیے ایک راستہ متعین کیا“

25 دسمبر 2016ء کو طویل علالت کے بعد اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے، [1]

حوالہ جات

ترمیم

حوالہ جات