سلسلہ کوہ سلیمان

(کوہ سلیمان سے رجوع مکرر)

30°30′N 70°10′E / 30.500°N 70.167°E / 30.500; 70.167

سلسلہ کوہ سلیمان کا ایک منظر

سلسلہ کوہ سلیمان (پشتو: د سليمان غر da Sulaimān Ğar‎; بلوچی/اردو/فارسی: کوه سليمان Koh-e Sulaimān), یا کوہ کیسائی (پشتو: د كسي غرونه‎)، جنوب مشرقی افغانستان (زابل اور زیادہ حصہ لویہ پکتیا اور قندھار شمالی مشرقی حصہ)، جنوبی وزیرستان اور صوبہ بلوچستان کے شمالی علاقوں اور صوبہ پنجاب، پاکستان کے جنوب مغربی علاقوں پر مشتمل ہے۔

کوہ سلیمان (حضرت سلیمانؑ کے پہاڑ) جسے پشتو میں ’د كسې غرونه‘ کہتے ہیں، جنوبی ہندوکش پہاڑی سلسلے کی شمالاً جنوباً واقع ایک شاخ ہے۔ ہندوکش پہاڑی سلسلہ پاکستان اور افغانستان میں واقع ہے۔ اسے اپرانچل رینج یا مغربی پہاڑ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ برِصغیر کی مغربی سرحد کا کام دیتا ہے۔یہ پہاڑی سلسلہ سطح مرتفع ایران کے مشرقی سرے سے بلند ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں افغانستانی صوبے قندھار، زابل اور پکتیا واقع ہیں اور یہ سلسلہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان اور وزیرستان کے شمالی علاقوں، کرم اور خیبر پختونخواہ میں بھی واقع ہے۔ جنوب مغربی پنجاب میں یہ پہاڑی سلسلہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع سے بھی گزرتا ہے۔ یہ اضلاع دریائے سندھ کے مغربی جانب اور بلوچستان کی سرحد سے جڑے ہیں۔اس سلسلے کے مشرق میں دریائے سندھ کی وادی کے میدان واقع ہیں اور شمال میں وسطی کوہ ہندوکش کے بلند مقامات ہیں جو 3,383 میٹر تک بلند ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ کل 6,475 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلہ اور کوہ سلیمان بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع اور کیرتھر کے ارضیاتی صوبہ کہلاتا ہے۔

کوہ سلیمان کی سب سے مشہور چوٹی تختِ سلیمان کی جڑواں چوٹیاں ہیں جو سطح سمندر سے 3,487 میٹر بلند ہیں۔ یہ چوٹیاں سب ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درازندہ کے قریب واقع ہیں۔ جنوبی وزیرستان اور صوبہ بلوچستان کا ضلع ژوب اس سے قریب ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بلند چوٹی کوئٹہ کے قریب زرغون غر ہے جو سطح سمندر سے 3,578 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ بلوچستان کی دوسری سب سے اونچی چوٹی خلافت پہاڑی ہے جو 3,475 میٹر بلند اور ضلع زیارت میں واقع ہے۔ اس مقام پر زیارت کے صنوبر کے باغات ہیں۔ جغرافیہ کوہ سلیمان کا مشرقی سرا خیبر پختونخواہ کے درہ گومل سے ۴۵۰ کلومیٹر دور ہے جو صوبہ سندھ کے ضلع جیکب آباد کے قریب ہے۔ افغانستان میں اس سلسلہ کوہ کا مغربی سرا شمالی لویہ پکتیا صوبے سے شروع ہوتا ہے جہاں کوہِ بابا سلسلے کا اختتام ہوتا ہے۔ وہاں سے جنوب کی طرف پکتیا صوبے میں گردیز کے شمال مشرقی سپن غر سلسلے سے جا ملتا ہے۔ مغرب کی سمت قندھار کی جانب اس کی بلندی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔

کوہ سلیمان اور اس کے مغرب میں واقع اونچے سطح مرتفع بحرِ ہند سے آنے والی نم ہواؤں کو روکنے کا کام کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وسطی اور شمالی افغانستان میں موسم خشک ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے طاس میں ان کی کم بلندی اس کے برعکس کام کرتی ہے۔ کوہ سلیمان سے نکلنے والے دریاؤں میں دریائے گومل (مشرق کو دریائے سندھ میں جا گرتا ہے) اور دریائے دوری (جنوب مغرب میں دریائے ہلمند سے جا ملتا ہے) اہم ہیں۔

سلسلہ کوہ سلیمان سے بہنے والے دریاؤں میں دریائے ڈوری اور دریائے گومل شامل ہیں۔ تخت سلیمان 3,483 میٹر (11,427 فٹ)، کوہ تکاتو 3,472 میٹر (11,391 فٹ)، کیسائی گھر 3,444 میٹر (11,299 فٹ) اور گیانداری کوہ سلیمان کے مشہور پہاڑ ہیں۔

ارضیات

ترمیم

جب انڈین پلیٹ یوریشین پلیٹ سے ٹکرائی تو دباؤ اور دھکیل کی وجہ سے کوہ سلیمان کا سلسلہ اب سے ۳ کروڑ سال قبل وجود میں آیا۔ انڈین پلیٹ کی گھڑیال مخالف حرکت کی وجہ سے کوہ سلیمان کی ساخت دنیا بھر میں اس نوعیت کی چند پیچیدہ ترین ساختوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے کوہ سلیمان میں دہرے زلزلے عام آتے ہیں۔ یہ زلزلے ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں ایک ہی شدت کے کئی جھٹکے ایک جیسی لہروں کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے فالٹ کو منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال 1997 میں آنے والا ہرنائی کا زلزلہ تھا جس کی شدت 7.1 تھی اور اس کے نتیجے میں 19 سیکنڈ بعد 50 کلومیٹر دور ایک اور فالٹ میں 6.8 شدت کا زلزلہ آیا۔

تختِ سلیمان سے متعلق روایات

ترمیم

روایات میں تختِ سلیمان کو حضرت سلیمانؑ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اس پہاڑ پر چڑھ کر جنوبی ایشیا کی سرزمین کو دیکھا جو اس وقت تاریکی میں پوشیدہ تھی اور وہین سے واپس مڑ گئے (روایتِ ابنِ بطوطہ)۔

ایک اور روایت کے مطابق طوفانِ نوح کے بعد حضرت نوحؑ کی کشتی تختِ سلیمان پر آن رکی۔

ایک اور روایت کے مطابق پشتون قوم کے بانی قیس عبدالرشید یہیں دفن ہیں جس کی وجہ سے پشتو میں اس مقام کو ’د كسې غرونه‘ کہتے ہیں یعنی قیس کا مزار۔

اس روایت میں یہ بھی بیان ہوتا ہے کہ قیس کی اولاد پھر یہاں سے مغرب، شمال اور جنوب کو پھیلی۔ اس روایت کی وجہ سے قیس کے مزار پر لوگ بکری یا بھیڑ کی قربانی کرتے ہیں تاکہ مقامی لوگوں کو کھانا کھلائیں۔ تختِ سلیمان کی سیر کے لیے گرمیوں کا موسم مناسب ہے کہ نومبر سے مارچ تک برف کی وجہ سے چڑھائی مشکل ہو جاتی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔