غلام محمد بگوی
مولانا غلام محمد بگوی کا شمار علما اہلسنت لاہور میں ہوتا ہے۔ آپ کی تحریک سے شاہی مسجد لاہور کو چھاونی سے پھر سے مسجد بنایا گیا۔ آپ بہت عرصہ اس مسجد کے خطیب و امام مقرر رہے۔
ولادت
ترمیممفتی غلام محمد کی ولادت 1255ھ/1839ء میں بگہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام مولانا غلام محی الدین بگوی تھا۔ بھیرہ کے بازاروں میں گھومنے والے ایک صاحب حال بزرگ نے آپ کے والد کو بیٹے کے صاحب علم و فضل ہونے کی بشارت دی تھی۔
حصول تعلیم
ترمیمغلام محمد بگوی نے درسی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں۔ علم حدیث کی سند بھی اپنے والد بزرگوار ہی سے لی۔ والد نے آپ کے علوم ظاہریہ کے ساتھ ساتھ اصلاح باطن کی طرف خاص توجہ دیا کرتے تھے۔ ایک رات ایک خاص وظیفہ پڑھنے کا حکم دیا تو خواب میں سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے بارگاہ دوعالم میں التجائے کرم کی تو ایک جان بخش مسکراہٹ سے جواب ملا : كل امرٍ مرھونٌ بوقتہ۔ صبح ہوئی تو خواب والد کو سنایا۔ والد نے فرمایا: مبارک ہو! دین و دنیا کے امور کی درستی کی بشارت کی گئی۔ اس خواب کے بعد آپ پر اتنے علوم منکشف ہوئے کہ جو آپ کے حوصلے سے بھی زیادہ تھے۔
بیعت
ترمیمغلام محمد بگوی نے بیعت کا شرف شاہ عبد الغنی کے دست حق پرست پر حاصل کیا۔ اس طرح آپ سلسلہ نقشبندیہ سے منسلک ہو گئے اور سلوک کی منازل طے کرنے گئے۔ آپ کے وصال کے بعد شاہ محمد سلیمان تونسوی سے روحانی فیض حاصل کیا۔ اس طرح برکات چشتیہ سے فیض یاب ہوتے رہے۔ آپ کو داتا گنج بخش لاہوری اور سلطان باہو سے خاص عقیدت تھی۔ آپ پر بابا جی فقیر محمد چوراہی کی خصوصی توجہ تھی۔ صاحبزادہ باولی شریف ضلع گجرات والے کہتے تھے کہ بابا جی نے جو آپ کو دیا کسی دوسرے کے حصہ میں نہیں آیا۔
شاہی مسجد لاہور کی خطابت
ترمیمسکھوں نے اپنے دور سلطنت میں جامع مسجد عالمگیری المعروف بادشاہی مسجد کو چھاونی میں تبديل کر دیا تھا۔ فوجیوں کے گھوڑے مسجد کے صحن میں بندھتے اور حوض سے پانی پیتے۔ جب کوئی دوسرا حملہ آور آتا تو مسجد کے میناروں میں نصب شدہ توپوں سے گولے برسائے جاتے۔ جوابا جوگولہ باری ہوتی وہ اکثر مسجد کے محراب و منبر کو مجروح کرتی اور میناروں کو ہلا دیتی۔ انگریزوں نے 1847ء میں لاہور پر قبضہ کر لیا تو مسجد بدستور چھاونی ہی بنی رہی۔ آپ تصور کریں کہ لاہور کے مسلمانوں کے قلب و جگر پر کیا گزرتی ہو گی۔ جب ان کی اتنی بڑی مسجد ان کی آنکھوں کے سامنے اسی حالت میں ہوں۔ جب حالت معمول پر آئے تو مولانا غلام محمد بگوی نے ایک تحریک شروع کی جس کا مقصد مسجد کا خالی کرانا تھا۔ ان کی لگاتار جہدوجہد نے لاہور کے مقتدر مسلمانوں کو بھی اس مطالبہ کا ہمنوا بنا دیا تھا اور وہ جرات اور دیانت داری کے ساتھ آپ کے معاون بن گئے۔ ڈپٹی برکت علی، فقیر جمال الدین اور دیگر اکابرین نے مولانا کے ساتھ مل مسجد کو مسلمانوں کی عبادت کے لیے حاصل کر لیا اور اسے پاک کیا گیا اور مرمت کر کے با قاعدہ اذان و جماعت اور خطبات کا اہتمام کیا گیا۔ مولانا غلام محمد بگوی کو ناصرف بادشاہی مسجد کا امام و خطیب مقرر کیا گیا بلکہ مسجد کی تولیت بھی آپ کے سپرد کی گئی۔ آپ کی زیر نگرانی مسجد کی رونق میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔
دار العلوم
ترمیممولاناغلام محمد نے شاہی مسجد میں ایک دار العلوم قائم کیا جہاں اہل سنت وجماعت کے علما کا ایک بورڈ قائم کر دیا گیا جو دینی مسائل کے جوابات دیتا اور عوام کے استفسارات کا جواب دیتا۔ ملت اسلامیہ کے تمام مسائل پر رائے زنی کرنا اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کی راہنمائی کرتا تھا۔ لاہور کی معاشرتی اور سیاسی ندگی کی ابتری کے باوجود مولانا نے اسلامی زندگی کو ہمراہ رکھنے کے لیے بڑا اہم کام کیا۔ علما کرام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے آپ دن رات کوشاں رہے۔؛انجمن نعمانیہ کے ذہین طلبہ دقیق مسائل پر آپ سے تبادلہ خیال کرتے تھے۔ شہر کے سنی علما مسائل کے حتمی فیصلہ کے لیے آپ سے ہی رجوع کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی شائع ہوئی جس پر آپ دستخط نہ ہو۔
وفات
ترمیممولانا غلام محمد بگوی کی وفات 4 جمادی الثانی 1318ھ/1900ء میں ہوئی۔ آپ کا مزار بگہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہے۔
اولاد
ترمیممولانا غلام محمد بگوی کی اولاد میں دو بیٹے شامل تھے جن کے نام یہ ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ علما اہلسنت و جماعت لاہور مولف علامہ اقبال احمد فاروقی صفحہ 218 تا 220 مکتبہ نبویہ، لاہور