علامہ حافظ غلام محمود پپلانوی گولڑوی ایک بلند پایہ عالم دین، علم ریاضی کے ماہر، علم، مناظرہ میں کامل دسترس رکھنے والے مصنف تھے۔

ولادت

ترمیم

مولانا غلام محمود، بن نورنگ، بن محمد باقر 1282ھ بمطابق 1865ء بمقام قصبہ وانڈہ محمد خان(پپلاں) ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔

آپ کا تعلق راجپوت قوم کی ایک شاخ " وینس " سے تھا۔

ابتدائی تعلیم

ترمیم

جب سن شعور کو پہنچے تو والدین نے اسلامی روایت کے مطابق اپنے ہونہار بچے کی تعلیم کا آغاز کلام اللہ سے کروایا، بعد میں گاؤں کے امام مسجد حافظ محمد مرزاسے قرآن مجید حفظ کیا۔

تکمیل تدریس

ترمیم

آپ نے قصبہ خانوخیل ( ڈیرہ اسماعیل خان ) میں درسیات کی ابتدا کی۔ ابتدائی کتب فارسی پڑھنے کے بعد بندیال کو رخت سفر باندھا، بندیال میں فارسی ادب کے یکتاے روزگار استاذ اور ادیب مولانا سلطان محمود نامی سے دیگر کتب فارسی، تمام کتب صرف اور نحو، عروض وقوافی کی بعض کتب پڑھیں۔ بندیال سے مولانااحمد الدین چکوالی سے درس مثنوی ربع المجیب اور ربع المقنطر اور زیج وغیرہ علوم کی تکمیل کی پھر کتب متداولہ کی تکمیل کیلءے جامعہ نعمانیہ لاہور گئے۔جامعہ نعمانیہلاہورسے تکمیل کے بعد علی گڑھ تشریف لے گئے۔ وہاں استاذ الکل مفتی لطف اللہ علی گڑھی کا شہرہ آفاقی درس قائم تھا۔۔ آپنے ان سے علم ریاضی کا اکتساب کیا۔ تحریر اقلیدیں ( تصنیف نصیرالدین محقق طوسی علم ہندسہ کی شہرہ آفاق کتاب ہے آپ نے مکمل کتاب سبقا پڑھ ڈالی۔ بعد ازاں دار العلوم دیو بند میں حاضر ہو کر مولا نامحمودحسن دیو بندی سے دورہ حدیث پڑھا اور سند حد یث حاصل کی۔

سلسلہ بیعت

ترمیم

1907ء میں قبلہ عالم پیرسید مہر علی شاہ گولڑ وی کے دست حق پرست پر بیعت کی۔

القابات

ترمیم

قدوۃ المحققین، امام منقولات ومعقولات، فاضل ریاضیات، عربی ادب کے بلند پایہ ادیب، فقہ حنفی کے تبحر عالم فاضل، جید مناظر سیبویہ زمانہ

جامعہ محمودیہ کا قیام

ترمیم

علامہ غلام محمود نے ہندوستان سے واپسی پر سب سے پہلے یہ کام کیا کہ 1903ء میں ولی کامل خواجہ پیر فتح محمد بھوروی کے ایما پر پپلاں میں ایک دینی درس گاہ جامعہ محمودیہ قائم فرمائی۔ ابتدا اس درس گاہ کا قیام غالبا مائی صاحبہ والی مسجد میں ہوا، بعد میں مستقل جگہ حاصل کر کے مدرسہ وہاں منتقل کر دیا گیا، جس میں شعبۂ حفظ کے علاوہ درس نظامی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔آپ نے اپنی تدریس کا آغاز اسی مدرسہ سے کیا۔ آپ نے طلبہ کو اس محنت لگن اور جد و جہد سے پڑھایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے قلیل عرصہ میں دور ونزدیک سے آپ کے پاس طلبہ کا جم غفیر ہو گیا۔اپنی سب سے بڑی تصنیف " تحفہ سلیمانی‘ حاشیہ بر تکملہ عبد الغفور کا آغاز بھی آپ نے اس دور میں کیا۔ قدوة المحققین نے عمر عزیز کے تقریباً 45 سال جملہ علوم وفنون کی تدریس کی۔1903ء میں اپنے قائم کردہ مدرسہ جامعہ محمودیہ میں درس کا آغاز کیا۔ 1907ء میں مکھڈ شریف (اٹک) تشریف لے گئے، تین سال وہاں قیام کیا۔ اس کے بعد تین سال چکی شیخ جی ( اٹک موجودہ چکوال ) اور پھر تین سال وطن عزیز قیام فرمایا تین سال نڑھال ( ملتان) میں پڑھایا۔ اس کے بعد بھیرہ شریف (سرگودھا) اور دو دفعہ مختلف اوقات میں مرولہ شریف ( موجودہ معظم آباد، سرگودھا) میں قیام کیا، ۔ پھر اپنے قائم کردہ مدرسہ جامعہ محمودیہ میں تقریباً 22 سال مسند تدریس پر جلوہ افروز ہو کر تدریس فرمائی یکم اگست 1948ء میں آپ کے وصال پر اس سلسہ علم وعرفان کا اختتام ہوا۔

تصنیفات

ترمیم
  • تحفہ سلیمانی
  • نجم الرحمن
  • ارمغان شاداں
  • شرح قصیدہ غوثیہ

وفات

ترمیم

23 رمضان المبارک 1367ھ/ یکم اگست 1948ء کو دار فانی سے دار بقا کا رخت سفر باندھا۔ آپ کے فرزندار جمند مولانا مفتی محمد حسین شوق نے نماز جنازہ پڑھائی۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. نجم الرحمن علامہ غلام محمود پپلانوی دار الاسلام اندرونی بھاٹی دروازہ لاہور