مولانا غلام مرشد 1894ء کو انگہ (ضلع خوشاب ) میں پیدا ہوئے، 1935ء سے 1965ء تک بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب رہے۔ آپ کو کارکن تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا گیا۔آپ 1929ء سے 1966ء تک انجمن حمایت اسلام کے نائب صدر اور جمعیت العلمائے اسلام کے بانی رکن تھے۔ علامہ اقبال دینی امور میں مولانا سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ وہ دھڑلے، جرأت اور بے باکی سے قرآن کی آواز بلند کرتے۔ حق بات کہنے میں کسی قسم کی مصلحت یا مفاہمت ان کے گلوگیر نہیں ہوتی تھی۔ وہ اقبال کے الفاظ میں ’’رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن‘‘ کی زندہ تصویر تھے۔ قرآن کے خلاف کوئی بات ان کے علم میں آتی تو اس کا جواب دیتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مرتے وقت میری زبان پر قال اللہ کے الفاظ ہوں۔ مولانا غلام مرشد حافظِ قرآن بھی تھے۔ علامہ اقبال کو برائے انتخاب خطیب بادشاہی مسجد، انجمن اسلامیہ نے اختیار دیا تھا۔ چنانچہ علامہ نے مولانا غلام مرشد کو بادشاہی مسجد کے خطیب کے منصب کے لیے رضامند کر لیا۔ آپ نے باقاعدگی سے منصب خطابت بادشاہی مسجد کو 1927ء میں سنبھال لیا۔ غرض کہ مولانا غلام مرشد صاحب نے مسجد بادشاہی لاہور میں قریباََ چالیس سال تک نہایت بلند ہمت اور اعلیٰ کردار سے خطبہ دیے اور اس مسجد سے وابستہ رہے۔ علامہ اقبال نے ایک خطبہ عیدالفطر 1932ء کے موقع پر بادشاہی مسجد میں عام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ مولانا غلام مرشد بھی وہاں موجود تھے۔ یہ خطبہ طبع بھی ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اقتصادی طور پر مسلمانان پنجاب تقریباََ سو ارب روپے کے مقروض ہیں جس پر ہر سال تقریباََ چودہ کروڑ روپے سود ادا کرتے ہیں۔ اس مسئلہ پر آپ نے اکثر قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اپنے خطوط میں توجہ دلائی تھی۔ یہ زمانہ سیاسی طور پر بہت بڑے ابتلا کا زمانہ تھا۔ اخیر ایام میں مولانا غلام مرشد اکثر میو روڈ والی کوٹھی میں علامہ اقبال سے ملنے جایا کرتے۔ 21 اپریل 1938ء کی صبح علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ بعض احباب اور اصحابِ اختیار کے مشورے سے یہ طے پایا کہ آپ کا جنازہ بادشاہی مسجد میں ہو گا۔ ایک وفد حکومت سے ملا۔ اس وفد میں مولانا غلام مرشد بھی شامل تھے۔ حکومت سے کہا گیا کہ علامہ اقبال کو بادشاہی مسجد کے باہر دفن کیا جائے۔ جنازہ آپ کے مکان میو روڈ سے بعد دوپہر اٹھایا گیا۔ علامہ کا جنازہ بادشاہی مسجد کے اندر صحن میں دائیں طرف پڑھایا گیا۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا غلام مرشد نے پڑھائی اور آپ کو اسی مسجد کے باہر دفن کیا گیا۔ مولانا غلام مرشد آہستہ آہستہ، رک رک کر خطبہ دیتے تا کہ سامعین کو ذہن نشین ہو سکے۔ مولانا ہر روز سنہری مسجد میں نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے۔ یہ مسجد ڈبی اور کشمیری بازار کے سنگم پر ہے۔ سڑک سے کافی بلندی پر بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1753ء میں ہوئی۔ اس درس میں والد صاحب کے ہمراہ میں بھی شریک ہوتا۔ مولانا غلام مرشد کی رہائش محلہ پٹرنگاں اندرون بھاٹی گیٹ میں تھی ۔ اس کے ساتھ حکیم ساجی کا مکان تھا۔ یہاں بھی مولانا سے میری چند ملاقاتیں رہیں۔ مولانا غلام مرشد، نامور شاعر، ادیب اور دانشور احمد ندیم قاسمی صاحب کے خالہ زاد بھائی تھے۔ مولانا صاحب اور احمد ندیم قاسمی کا آبائی گاؤں انگہ ہے۔ مولانا مرشد نے 14 ستمبر 1979ء کو وفات پائی اور ان کی کی تدفین انگہ میں ہوئی، [1]

حوالہ جات ترمیم

حوالہ جات