غلام مصطفیٰ زرداری (انگریزی: Ghulam Mustafa Zardari، پيدائش: 1 مارچ 1967ء سندھ کے صوفی شاعر، بُزرگ اور حکیم ہیں۔ وہ سندھ کے ایک مشهور صوفی درويش حافظ علی مراد مست کے پوتے ہیں۔ غلام مصطفیٰ زرداری چھہ صوفی شاعری کے کتابوں کے مصنف ہیں.

غلام مصطفیٰ زرداری
معلومات شخصیت

بچپن اور تعلیم ترمیم

غلام مصطفیٰ زرداری جن کا جنم 1 مارچ 1967ء پر ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ ڈوکری کے ایک گائوں غلام محمد بھٹو میں ہوا. یے سندھ کے نہایت ہی مشہور اور مقبول صوفی بزرگ حافظ علی مراد مست کے پوتے ہیں۔ انھوں نے قرآن کی ناظراں تعلیم اپنے نانا محمد دائود رحہ سے حاصل کی. اور انہی کے گائوں میں ہی سندھی کی شروعاتی پانچ جماعتیں پاس کی. انھوں نے دینی تعلیم و تربیت گائوں خیر محمد آریجہ میں حاجی ہدایت الله کے مدرسے سے حاصل کی. مدرسے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھینسوں اور بکریوں کے ریوڑ چرانے لگ گئے۔ انھوں نے مڈل کی تعلیم اسکول بُٹ سرائی (Sindhi: ٻُٽ سرائي) سے جبکہ رادھن اسٹیشن ہا اسکول سے میٹرک کا امتحان 1985ء میں پاس کیا. انھوں نے 1987ء میں گورنمینٹ ایلیمینٹری کالیج دادو میں داخلا لی جہاں سے پرائمری اسکول کے استاد کی تربیت حاصل کی. غلام مصطفیٰ زرداری نے انٹر (پرائیویٹ), (بی. اے), (ایم. اے) اور (بی. ایڈ) بھی پاس کی.

شاعری اور پیشور زندگی ترمیم

جو مجھ سے روحانی طرح محبت کرتے ہیں وہ مجھے میرے خون کے رشتوں سے زیادہ عزیز ہیں.

7 جون, 1987ء پر غلام مصطفیٰ زرداری کو پرائمری استاد کا آرڈر ملا. جو انھوں نے ککڑ شہر خیرپور ناتھن شاہ میں جوائن کیا. انھوں نے شاعری کی ابتدا 1986ء میں کی. کچھ عرصہ مجاز میں چلنے کے بعد ان کا رجہان حقیقت کی طرف گیا۔ 1980ء سے 1994ء یے چودا سال کا عرصہ انھوں نے گائوں مٹھو جھتیال میں گزارا.

ذاتی زندگی ترمیم

غلام مصطفیٰ زرداری کے پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔ ان کی شادی چنیسر خان جھتیال کی دختر سے ہوئی ہے۔ 1987ء سے 1988ء کے دوران ان کا خاندان گائوں غلام محمد بھٹو, تعلقہ ڈوکری سے ہجرت کر کہ گائوں " سائو ڈھورو" تعلقہ مورو میں آ بسا. اس وقت غلام مصطفیٰ زرداری ایک صوفی بزرگ اور بہترین حکیم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں.

حقیقت کی طرف رجہان ترمیم

معتبر طالبات کے حساب سے صوفی جمال الدین فقیر جو حافظ علی مراد مست کے طالب بھی رہے ہیں اور دعا کے بادشاہ بھی بلائے جاتے ہیں وہ جب گائون مٹھو جھتیال میں رہائش پزیر ہوئے تب حافظ علی مراد مست کے عروج و نزول، جلال و کمال، کشف و کمالات کی گفتگو چھڑنی شروع ہوئی اور تبھی سے سائیں سرکار کی اندر والی آنکھ نے کھلنا شروع کیا. جس سے ان کو یے معلوم ہوا کے میں کیا ہوں؟ میرے وجود میں ہی مجھ سے گفتگو کرنے والا کون ہے؟ دم کیا ہے؟ دم کا آنا کہاں سے ہے؟ اور جانا کہاں ہے؟ مطلب کہ ان کے وجود سے ہی سوالات ابھرے اور ان کے اندر والے قاضی نے ان سوالات کے جوابات مہیا کیے. تبھی سے قلب قراری ہوا جو صوفی جمال الدین فقیر کی روحانی گفتگو کا نتیجا تھا.

حوالہ جات ترمیم