فاروق روکھڑی
فاروق روکھڑی کندیاں میانوالی(پنجاب)، پاکستان سرائیکی اردو کے مشہور شاعر ہیں۔بابائے تھل سے معروف ہیں۔
فاروق روکھڑی | |
---|---|
لقب | ادیب اور شاعر |
ذاتی | |
پیدائش | 7مئی1929ء |
وفات | 6,اپریل2008ء |
مذہب | اسلام |
مرتبہ | |
دور | جدید دور |
"ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا"
(ولادت: 29 مئی 1929ء - وفات: 6 اپریل 2008ء)
نام
ترمیمقلمی نام فاروق روکھڑی اصل نام سردار عمر فاروق روکھڑی ہے۔
پیدائش
ترمیمقیام پاکستان سے پہلے 7 مئی 1929ء روکھڑی میانوالی (پنجاب) – پاکستان میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیممیٹرک تک تعلیم حاصل کی۔
تحریک پاکستان
ترمیمجب تحریک پاکستان کا سلسلہ شروع ھو ا تو تمام اہم شخصیات کے ساتھ اپ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور تحریک پاکستان کے جلسوں میں بھی شریک رہے۔ان تھک قربانیوں کے بعد وہ دن بھی آیا جب بابائے تھل نے اپنی آنکھوں سے آزادی کا ابھرتا سورج دیکھا۔ ہر طبقہ فکر کو سوچ کی آزادی ملی اسی دوران آپ ضرورت معاش کے پیش نظر 1949میں پاکستان ریلوے میں بھرتی ھوئے۔
شاعری
ترمیمشاعری بچپن سے آپ کی رگ رگ میں بسی تھی۔جوں جوں عمر بڑھی یہ شوق بھی پختہ ہوتا گیا۔کوئی دکھ،کوئی پریشانی،کوئی ضرورت اس شوق کو ختم نہ کر سکی۔شاعری میں اردو اور سرائیکی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اپنے اس شوق کو عروج کی ان منزلوں تک پہنچایا کہ بابائے تھل کہلائے۔اور اپنے علاقے کانام روشن کیا۔ مشاعرہ ترنم سے پڑھا کرتے تھے- اپنے قلم کی مہارت اورسچ کی بلندیوں کی وجہ سے
- 1)المنصور ایوارڈ
- 2) سانول ایوارڈ
- 3) خواجہ فرید ایوارڈ اور صدر ضیا الحق سے نقد انعام بھی حاصل کیا۔
عطأ اللہ عیسٰی خیلوی , منصور ملنگی , مسعود ملک اور بے شمار گلوکاروں نے آپ کا کلام گایا۔ سرائیکی گیت
- " کنڈیاں تے ٹر کے آئے" بہت مقبول ھوا اور آپ کی پہچان بنا۔
- "ہم تم ھونگے بادل ھوگا"
یہ غزل بھی بہت مقبول ھوئی-
وفات
ترمیم6اپریل 2008ء روکھڑی (پنجاب) – پاکستان میں فوت ہوئے۔کندیاں میں ریلوے کے قبرستان میں مدفن ہیں۔ کتبہ پر آپ کا اپنالکھا ھوا شعر کندہ ہے۔جو آج بھی پڑھنے کو طمانیت بخشتا ہے۔
- اہل دل کی خوبی ہے فاروق یہی,,, جینے کی توفیق نہ ھو مر جاتے ہیں
مجموعہ ہائے کلام
ترمیم- مینوں میڈے گیتاں لٹیا
- سب کج میرا
- کاغذ دی بیڑی
- میں کوئی پارسا نہیں فاروق۔ شاعری
- ہم کو بھی نیند آئے۔ شاعری[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ پاکستانی اہلِ قلم کی ڈائریکٹری، نکہت سلیم، اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان، ت ن، ص 284