فاضل درخانی
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
یہ ایک یتیم صفحہ ہے جسے دیگر صفحات سے ربط نہیں مل پارہا ہے۔ براہ کرم مقالات میں اس کا ربط داخل کرنے میں معاونت کریں۔ |
مولانا محمد فاضل درخانی رئیسانی 1830 ء کو دره بولان ڈھاڈر کے مقام پر متولد ہوئے، آپ کے والد کا نام درخان رئیسانی تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم علاقے اور گرد و نواح میں حاصل کی اس زمانے میں بلوچستان میں کوئی خاص علمی مرکز نہیں تھا جہاں تشنگاں علم اپنی علمی پیاس بجھادیتے، لہذا مولانا موصوف حصول علم کی خاطر گاؤں ہمایون شکارپور چلے گئے جہاں ان کی ملاقات مولانا عبد الغفور ہمایونی سے ہوئی مولانا مصوف کی خصوصی توجہ کی بدولت محمد فاضل درخانی علوم اسلامیہ کے نامور عالم بن گئے۔
واپس اپنے علاقے آکر دین اسلام کی خوب خدمت کی. یہ وہی دور تھا کہ انگریزوں کے نگاہ بلوچستان پر تھی.
خان محراب خان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے قلات سٹیٹ پر قبضہ کر لیا، حسب معمول چاپلوس اور دھوکا باز اور وطن فروش برائے نام سرداروں اور نوابوں کو خوب نوازا.
دوسری طرف عیسائی مبلغین عیسائیت کی تبلیغ بھی شروع کی، انگریزون کا خیال تھا کہ یہاں کے لوگ غریب ہیں ان کو مال اور دولت کا لالچ دے کر یا زور زبردستی عیسائی بنائیں گے انھوں نے اپنی اس مشین کو جاری رکھا.
اب اس صورت حال میں سیاسی کشمش کے ساتھ ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئیں کہ ایک طرف دین کی خدمت کی جائے اور ساتھ ہی عیسائیوں کی ناپاک سازشوں سے ان پڑھ اور ساده لوح لوگوں کو آگاہی دی جائے ان حالات کے پیش نظر مولانا محمد فاضل رئیسانی نے کمرکس لی. اس تحریک کی قیادت مولانا موصوف نے کی انھوں نے اپنے ہم نوا اور مخلص علما کرام کے ساتھ بڑی سوچ وبچار کے بعد ایک دینی مدرسے کی بنیاد ڈالنے کا مصمم اراده کیا اور ڈھاڈر کے قریب درخان کے مقام پر ایک اسلامی مدرسے کی بنیاد رکھی.
1882ء میں مدرسہ درخانی کا قیام عمل میں آیا اور صرف تین سال بعد یہ اداره ایک مدرسہ سے ایک مکتبہ بن گیا، مولانا موصوف کی قیادت میں مکتبہ درخانی کے علما کرام نے وه خدمات سر انجام دیں جو تاریخ کا اہم حصہ بن گئے۔
مکتبہ درخانی کے علما کرام نے ایک طرف دینی خدمات سر انجام دیں دوسری طرف عیسائی مشنری کے خلاف بھرپور دینی علمی اور ادبی کام کیے، عیسائی مشنری بری طرح ناکام و نامراد ہوئی اور بلوچستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہاں کا ایک بھی باشنده عیسائی مذہب اختیار نہیں کیا.
مکتبہ درخانی کے جن نامور علما نے تاریخی کارنامے سر انجام دیے ان میں مولانا میاں حضور بخش جتوئی، مولانا نبو جان قلندرانی، علامہ محمد عمر دینپوری ، مولانا عبد الحئ درخانی، مولانا عبد المجید جتوئی اور مولانا عبد الغفور کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں، ایک اندازے کے مطابق مکتبہ درخانی نے مختلف دینی، مذہبی، اصلاحی اور سیاسی موضوعات پر تقریبًا ایک ہزار کتابیں شائع کیں.
پہلی مرتبہ قرآن مجید کا (رخشانی) بلوچی اور (براہوی) ترجمہ مکتبہ درخانی کے علما کرام نے کیا.
تو اس سے آپ اندازه لگائیں کہ وطن اور اپنے لوگوں کے لیے علما کرام نے تلوار کے ساتھ قلم کو بھی نہیں چھوڑا اور گوناگوں مصائب برداشت کیا.
عظیم مجاہد عالم با عمل مولانا محمد فاضل درخانی رئیسانی نے تمام عمر دین، علم اور ادب کی خدمت کرنے کے بعد 23 مارچ 1896ء کو بروز منگل خالق حقیقی سے جاملے، آپ کو ڈھاڈر پنج پھلی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا.
[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (تذکرہ علما بلوچستان از کامران اعظم سوہدروی )