1880ء میں مولانا حضور بخش جتوئی اور مولانا فاضل درخانی نے انگریزوں کے خلاف سبی کے ایک چھوٹے سے گاؤں درخان، ڈھاڈر میں ایک مدرسے کا قیام عمل میں لایا، جہاں اسلامی تعلیمات کو عام کیا گیا اور علما پیدا کیے گئے تا کہ عیسائی مشینریوں کا دفاغ کیا جا سکے، مدرسہ کے ساتھ 3سال بعد مکتبہ درخانی قائم کی گیا جس میں بلوچی، براہوی، سندھی، اردو ، فارسی اور عربی کتابیں تصنیف اور ترجمہ بھی کی گئیں۔ بلوچی زبان کا موجودہ رسم الخط بھی مکتبہ درخانی سے ہی وجود میں آیا۔ یہ مکتبہ بھی مدرسہ درخانی سے وجود میں آئے، [1]

یہ مدرسہ1857ء کی جنگ کے کچھ ہی عرصہ بعد بنیادی طور پر انگریزی استعمار کے دور کے نصرانی مشنری ادارہ بائبل سوسائٹی کی سازشوں کے سدباب کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ درخان میں جوڈھاڈر کے قریب ہے اس مدرسہ کا قیام عمل میں آیا ،یہ مدرسہ ڈھاڈرسبی شاہراہ عام پر برلب سڑک واقع ہے اور اس کا نام اسی بستی کے نام پر مدرسہ درخانی منتخب کیا گیا ہے۔ اس مدرسہ کے مؤسس اور صدر مدرس مولانا فاضل رئیسانی درخانی تھے،یہ مدرسہ آج بھی قائم ہے اور تشنگانِ علوم دینیہ کو سیراب رہا ہے۔

مکتبہ درخانی

ترمیم

1880ء میں مدرسہ درخانی کا قیام عمل میں آیا اور صرف تین سال بعد یہ اداره ایک مدرسہ سے ایک مکتبہ بن گیا، مولانا موصوف کی قیادت میں مکتبہ درخانی کے علما کرام نے وه خدمات سر انجام دیں جو تاریخ کا اہم حصہ بن گئے۔ مکتبہ درخانی کے علما کرام نے ایک طرف دینی خدمات سر انجام دیں دوسری طرف عیسائی مشنری کے خلاف بھرپور دینی علمی اور ادبی کام کیے، عیسائی مشنری بری طرح ناکام و نامراد ہوئی اور بلوچستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہاں کا ایک بھی باشنده عیسائی مذہب اختیار نہیں کیا. مکتبہ درخانی کے جن نامور علما نے تاریخی کارنامے سر انجام دیے ان میں مولانا میاں حضور بخش جتوئی، مولانا نبو جان قلندرانی، علامہ محمد عمر دینپوری ، مولانا عبد الحئ درخانی، مولانا عبد المجید جتوئی اور مولانا عبد الغفور کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں، ایک اندازے کے مطابق مکتبہ درخانی نے مختلف دینی، مذہبی، اصلاحی اور سیاسی موضوعات پر تقریبًا ایک ہزار کتابیں شائع کیں۔ پہلی مرتبہ قرآن مجید کا (رخشانی) بلوچی اور (براہوی) ترجمہ مکتبہ درخانی کے علما کرام نے کیا. تو اس سے آپ اندازه لگائیں کہ وطن اور اپنے لوگوں کے لیے علما کرام نے تلوار کے ساتھ قلم کو بھی نہیں چھوڑا اور گوناگوں مصائب برداشت کیا۔

مکتبہ درخانی نامی ادارہ ایک عالم مولانا محمد فاضل درخانی کی معیت میں 1880ء میں درخان ڈھاڈر میں ایک مدرسہ کی شکل میں قائم کی گئی جس نے آگے کام کرتے ہوئے 1883ء میں ایک مکتبہ کی شکل اختیار کیا۔ جس سے وقتاً فوقتاً اشاعت کا کام جاری رہا۔ اسی مکتبہ کے ایک نامی عالم علامہ محمد عمر دین پوری نے 1911ء میں "شروط الصلوٰۃ" کا براہوئی ترجمہ پیش کیا۔ اسی طرح علامہ صاحب نے آگے کام جاری رکھتے ہوئے 1916ء میں مولانا عبد الحئی کی مدد سے قرآن پاک کا براہوئی ترجمہ پیش کیا۔ 1921ء میں علامہ دین پوری کی ایک اور کتاب " اعلان واجب البیان" شائع ہوئی جس میں قرآن پاک، احادیث نبوی ﷺ کے متعلق بیان کی گئی ہے۔ 1927ء میں علامہ دین پوری صاحب کے کتاب " مثال حال"، " تحفتہ الامراء" اور " ہدایت المستورات" شائع ہوئے جن کا تعلق دینی امور و دینی حکایات سے ہے۔ اسی طرح علامہ صاحب نے 1928ء میں قرآن پاک کے دس پاروں کی تفسیر بھی پیش کیا۔ 1929ء میں علامہ صاحب کی ایک کتاب " مُلا اُرانا" شائع ہوئی۔ 1933ء میں "قاعدہ براہوئیہ" شائع ہوئی۔ ان کے علاوہ علامہ محمد عمر دین پوری کے چند اور کتابوں کے نام یہ ہیں، " تنبیتہ الغافلین، بچھڑا، آئینہ قیامت، داستان ابلیس، شرح اصول ستہ اور ہدایت قادریہ ۔" اسی طرح علامہ عبد المجید چوتوئی کی نثری کتاب " شمعتہ القلوب" بھی ایک نامی کتاب ہے جو 1938ء میں شائع ہوئی۔​ 1940ء میں علامہ عبد الباقی درخانی کی مشہور نثری کتاب "خطبات درخانی" شائع ہوئی۔ 1946ء میں خلیفہ گل محمد نوشکوی کی نثری کتاب " معلم الحج" شائع ہوئی۔ 1958ء میں نوشکوی کی کتاب " شروط الصلوٰۃ" شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ نوشکوی کی کتاب " مجربات نوشکوی" دو جلدوں میں شائع ہوئے۔ ان سب کے علاوہ مکتبہ درخانی کے چند اور مشہور علما نے بھی براہوئی نثر میں گراں قدر خدمات سر انجام دیے۔ جو براہوئی نثر کو آگے بڑھانے میں اہم اقدام ثابت ہوئے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ بلوچستان ،کامران اعظم سوہدروی