فتح اللہ گلین
فتح اللہ گلین 27 اپریل 1941ء کو ترکی کے شہر ارض روم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز گاؤں کے اسکول ہی میں ہوا لیکن جب گھر والوں نے گاؤں چھوڑ کر ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ اس کے بعد انھوں نے دینی تعلیم حاصل کی۔ 14 برس کی عمر میں انھوں نے پہلی بار مسجد میں جمعہ کی تقریر کی۔ وہ معروف ترک سکالر بدیع الزماں سعید نورسی کے پیروکار بن گئے۔ ان کی فکر پر اب تک سعید نورسی ہی کی واضح چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ 1959ء میں انھیں باقاعدہ سرکاری طور پر خطیب تسلیم کر لیا گیا۔ 1966ء میں وہ ازمیر میں منتقل ہو گئے یہاں سے ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ وہ پوری ملک کی مساجد میں جا کر خطاب کرنے لگے۔ اب ان کے سننے والوں میں اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کی کثرت ہوتی تھی۔ وہ اپنی تقاریر میں تعلیم، سائنس، ڈارون ازم، معاشی ترقی اور معاشرتی انصاف کی بات کرنے لگے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان مغرب کی برتری کا احساس ختم کریں اور خود ترقی کی شاہراہ پر سفر کریں۔ وہ یہ سب باتیں قدر درد مندی سے کرتے کہ لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔
وہ جدت پسند مسلمان سکالر، مصنف اور گلین موومنٹ کے قائد ہیں۔ ان کے خیالات سے متاثر ہونے والے افراد لاکھوں میں ہیں جو صرف ترکی ہی سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بیرونی ممالک میں بھی آباد ہیں۔ انھیں جدید صوفی قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے سارے لوگوں سے محبت کرنی چاہیے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ مغرب میں فتح اللہ گلین اور ان کی تحریک کو سمجھنے کے لیے خاصی تحقیق ہو رہی ہے۔ ان کے حوالے سے کئی کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں حال ہی میں برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اسی طرح امریکہ میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں بھی ان کے بارے میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا موضوع تھا عالمی چیلنجز کے دور میں اسلام۔ موصوف نے نائن الیون کے واقعات کی شدید مذمت کی تھی او ر کہا تھا کہ وہ امریکیوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں جن لوگوں سے میں نفرت کرتا ہوں ان میں سے ایک اسامہ بن لادن بھی شامل ہیں، وہ اسلام کے روشن چہرے کو گدلا کر رہے ہیں، یہ اسلام نہیں ہے جو وہ پیش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اسلام کی بنیاد دلائل سے تبدیل کرکے احساسات اور جذبات پر رکھ دی ہیں۔ اب تک گلین کی 60 سے زیادہ تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے پیروکاروں نے دنیا کے 90 ممالک میں 1000 تعلیمی ادارے کھول رکھے ہیں جہاں وہ لوگوں کو تعلیم و تربیت دے رہے ہیں۔ گلین موومنٹ کے زیر اہتمام متعدد یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ 1998ء سے اب تک وہ امریکا میں مقیم ہیں۔