فردوس بریں کا خلاصہ

فردوس بریں

    مولانا عبد الحلیم شرر [[1]]) اردو کے مایہ ناز ادیب ، صف اول کے انشاپرداز ، عظیم ناول نگار اور تاریخی ناول کے بنیاد گزار ہیں ، مولانا نے اپنی پینسٹھ سالہ زندگی میں چھوٹی بڑی ایک سو دو کتابیں لکھیں ، لیکن جو شہرت و مقبولیت "فردوس بریں " کو ملی وہ کسی کتاب کو نصیب نہ ہو سکی ۔

   "فردوس بریں "ایک تاریخی ناول ہے ، اس میں فرقۂ باطنیہ کی تاریخ زوال بیان کی گئی ہے ، فرقۂ باطنیہ اسلامی عقائد ونظریات کا سخت دشمن ہے ، اس کی داغ بیل مامون الرشید کے زمانے میں میمون بن القداح ، حمدان بن قرمط اور عبد اللہ بن میمون کے ہاتھوں پڑی ، پانچویں صدی ہجری میں حسن بن صباح  باطنیہ کا پرجوش داعی و علم بردار تھا ، فردوس بریں کا تاریخی زمانہ ساتویں صدی ہجری کا نصف ثانی ہے ۔

   فرقۂ باطنیہ کے لوگ مختلف تدبیروں سے سیدھے سادھے مسلمانوں کا اغوا کرتے اور برین واش کرکے باطنی عقائد ونظریات کے معتقد بناتے ، ان کے ترکش کا سب سے کارگر تیر "فردوس بریں "تھا ، اس ناول میں اسی "فردوس بریں "کے راز سربستہ سے پردہ اٹھایا گیا ہے ۔

        ناول کی ابتدا حسین اور زمرد سے ہوتی ہے ، جو شہر آمل کے رہنے والے ہیں اور حج کے ارادے سے گھر سے نکلے ہیں ، آٹھ دن کی مسافت طے کرنے کے بعد  شام کے وقت نہر ورنجان پر پہنچتے ہیں، یہاں پہنچ کر زمرد قزوین کی راہ چھوڑ کر نہر کی اس طرف کا رخ کرتی ہے  جدھر پریوں کا نشیمن ہے ، حسین بار بار زمرد کو اس ارادہ سے روکتا ہے لیکن وہ نہیں مانتی اور اصرار کرتی ہے کہ  وہ اپنے بھائی موسی کی قبر پر فاتحہ خوانی کیے بغیر حج کو نہیں جا سکتی ، آخر کار حسین اپنی مہ جبیں ودلربا محبوبہ زمرد کے اصرار پر سپر ڈال دیتا ہے ،

        کچھ  دور چلنے کے بعد وہ دونوں اس وادی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں موسی کی قبر ہے ،، موسی کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ، پھر سستانے کے لیے بیٹھتے ہیں ، اتنے میں ہی پریوں کا غول آتا ہے اور ان دونوں پر حملہ کردیتا ہے ، اس حملہ کی تاب نہ کر بے ہوش ہو جاتے ہیں ، صبح جب حسین کو ہوش آتا ہے ، وہ موسی کی قبر کے بغل زمرد کا نام بھی کندہ پاتا ہے ، مارے غم کے حسین  پھر بے ہوش ہوجاتا ہے ، ہوش آنے کے بعد وہ دل میں  ٹھان لیتا ہے کہ وہ  بھی اسی وادی میں زمرد کی قبر کے پاس تڑپ تڑپ جان دے دے گا  لیکن یہاں ٹلے گا نہیں ، وہ  زمرد کی قبر کا مجاور ہوکر وہیں بیٹھ رہتا ہے ، چھ ماہ بعد "ملأ اعلی "سے زمرد کا خط آتا ہے ، خط میں زمرد حسین کو وطن لوٹ جانے کو کہتی ہے ، لیکن حسین وفور جذبات میں اس خط کی پروا نہیں کرتا ، کچھ دنوں کے بعد دوسرا خط آتا ہے ، جس میں زمرد حسین کو  اپنے تک رسائی کی ترکیب بتاتی ہے ۔

      حسین زمرد کی ہدایات کے مطابق اس وادی سے نکل کر کوہ جودی کی مغربی گھاٹی میں چلہ کھینچتا ہے ، یہاں چلہ کشی کے بعد دمشق کی راہ لیتا ہے ، وہاں حضرت یعقوب وحضرت  یوسف  علیہما السلام کے مزار  (حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے مزار کا دمشق میں ہونا تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ) کے تہ خانہ میں نفس کی اصلاح میں مشغول ہوتا ہے ، تہ خانہ سے باہر نکلتے حسین مجاوروں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتا ہے ، ان دنوں  حاکم شہر  کے قتل اور باطنی فدائیوں کے حملوں سے شہر میں بھگڈر مچ جاتی ہے ، اس کا فائدہ اٹھا کر حسین شہر حلب بھاگ نکلتا ہے ۔

     حلب پہنچ کر زمرد کی ہدایت کے مطابق شیخ علی وجودی سے ملاقات کرتاہے ، شیخ وجودی حسین کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کرلیتا ہے اور سال بھر  اپنی خانقاہ میں رکھتا  ہے، اس مدت میں شیخ وجودی حسین کی  اچھی طرح برین واش کرکے باطنی افکار وخیالات  اس کے دماغ میں بھر دیتا  ہے  ، جب شیخ کو  کامل  یقین ہوجاتا ہے کہ حسین فدائی بن چکا ہے ، تب اسے فدائی خنجر دے کر امام نجم الدین نیشاپوری کے قتل پر مامور کرتا ہے ۔

       امام نجم الدین نیشاپوری کے قتل کے بعد حسین کا قد باطنیوں میں بڑھ جاتا ہے ، اب اس " کار عظیم " کے بدلہ حسین کو "فردوس بریں " کی سیر کرائی جاتی ہے ، فردوس بریں میں   وہ اپنی مینو نشیں، مہ جبیں ، نازنیں اور وفاکیش محبوبہ کی دید و ملاقات سے محظوظ ہوتا ہے ، یہاں رومان پرور ماحول میں خوب عشق ومحبت کی باتیں ہوتی ہیں ، طرب انگیز مناظر سے لطف اندوزی ہوتی ہے ، لیکن یہ مدت  بہت مختصر ہوتی ہے ، کچھ ہی دنوں حسین کو پھر سے عالم عناصر میں لوٹا دیا جاتاہے ۔

       عالم عناصر میں آنے کے بعد حسین کو زمرد کا فراق برداشت نہیں ہوتا  ، وہ اپنے شیخ وجودی سے زمرد سے دوبارہ ملنے کی درخواست کرتا ہے ، شیخ اپنا سفارشی خط دے کر حسین کو قلعہ التمونت کے امام قائم قیامت کے پاس بھیج دیتا ہے ، حسین قلعہ پہنچ کر شیخ وجودی کا خط دکھا کر امام قائم قیامت رکن الدین خورشاہ کے دربار میں باریاب ہوتا ہے ، خورشاہ سے اپنا مدعا عرض کرتا ہے ، خورشاہ کہتا ہے کہ  دوبارہ ملاقات کے لیے  اور ریاضت درکار ہے ، حسین کہتا ہے اس نے امام نجم جیسی شخصیت کو قتل کیا ، اس لیے دوبارہ ملاقات کی اجازت دی جائے ، اس رد و کد میں امام قائم قیامت کو غصہ آجاتا ہے اور حسین کو قلعہ سے باہر نکلوا دیتا ہے ۔

        راندۂ درگاہ ہونے کے بعد  حسین سخت مایوس ہوا اور اسی مایوسی کے  عالم میں زمرد کی قبر کا رخ کیا ہے اور  اسی وادی میں پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا ، پھر یہاں حسین کو زمرد کے دو خط ملے ، ایک اس کے نام کا ، دوسرے  بلقان خاتون کے نام کا ،  وہ خط لے کر بلقان کے پاس گیا اور تنہائی میں زمرد کا خط اس کے حوالے کیا ، خط میں بلقان  کے باپ کے قاتل "دیدار " تک پہنچنے کے تدبیر درج تھی ، اگلے ہی دن بلقان اپنے چچا زاد بھائی سے اجازت لے کر ایک بڑی فوج کے ساتھ زمرد کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑی ، تین دن کی مسافت کے بعد ایک ایسی جگہ پر پہنچی ، جہاں  جنگل تھا ، زمرد کی ہدایت کے مطابق بلقان اپنے ساتھ حسین اور پانچ تاتاری جانباز کو ساتھ لیا اور باقی فوج کو  یہیں رکنے کا حکم دیا ، بلقان اور اس کے ساتھی جنگل میں داخل ہوئے اور جھاڑیوں میں الجھتے ہوئے "فردوس بریں " کے دروازے پر پہنچ گئے ،  بلقان تین جانبازوں کو  دروازے پر چھوڑ اور حسین اور ایک جانباز کو ساتھ لیے "فردوس بریں "میں داخل ہوئی ، زمرد نے ان کا استقبال کیا اور فردوس بریں کے سارے رازوں سے پردہ اٹھا دیا ، اگلی صبح ہلاکو خان بھی اپنی پوری فوج کے ساتھ بلقان کی مددکو  آگیا ، پلان کے مطابق تاتاری فوج پہلے سے ہی قلعہ التمونت کا محاصرہ کیے ہوئی تھی ، زمرد ، بلقان ، حسین اور ہلاکو خان سنہرے پل کے راستے سے خاموشی سے  قلعہ التمونت میں داخل ہوئے ، ان کے داخل ہوتے ہی حملہ کا بگل  بجادیا  گیا  ، اب کیا تھا ہر طرف انسانی لاشیں تڑپ رہی تھیں ، چن چن کر باطنی مارے گئے ، طور معنی اور شیخ علی وجودی کو حسین نے اسی فدائی خنجر سے مارا جو شیخ وجودی نے اسے دیا تھا ، اس طرح باطنیوں کا قصہ تمام ہوا ۔

         باطنیوں کے خاتمے کے بعد بلقان خاتون نے حسین اور زمرد کی شادی کرا دی ، شادی کے بعد وہ دونوں حج کے مقدس سفر پر نکل گئے جس کے لیے وہ  اپنے شہر آمل سے چلے تھے ۔

      ناول کے مرکزی کردار حسین ، زمرد ، بلقان خاتون اور شیخ علی وجودی ہیں ۔

     حسین :

         حسین گرچہ ناول کا ہیرو ہے، لیکن نہایت درجہ بزل دل ، ڈر پوک ، کم ہمت اور سادہ لوح ہے ، اس کے پاس بے پناہ محبت کرنے والا دل ہے ، لیکن پاسبان عقل نہیں ، زمرد کی محبت میں اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اچھے برے کی اسے کوئی تمیز نہیں رہتی  ، وہ شیخ وجودی کے  ہر حکم کی اطاعت بلا چوں چرا روبوٹ کی طرح کرتا ہے ، شیخ وجودی امام نجم الدین نیشاپوری کے قتل کا حکم دیتا ہے وہ اس حکم کو بجا لاتا ہے ، پورے ناول میں حسین کا کردار بودا اور عقل وشعور سے عاری ہے ۔

  زمرد :

   حسین کے برخلاف زمرد کا کردار نہایت طاقتور ہے ، وہ ایک باہمت اور نے ڈر خاتون ہے ، عزم و حوصلہ کا پہاڑ ہے ، وہ ہر موقع پر دانشمندی وعقلمندی کا ثبوت پیش کرتی ہے ، اسی کی کوشش وتدبیر سے "فردوس بریں" کے راز پردہ اٹھا ، وہ حسین سے بہت محبت کرتی ہے لیکن حسین کی طرح از خود رفتہ نہیں ہوتی ۔

    بلقان خاتون :

     ایک تاتاری شہزادی ہے ،  بے باک اور باہمت خاتون ہے ، اس کے باپ چغتائی خان کو باطنی فدائی "دیدار " نے رکن الدین خورشاہ کے حکم پر قتل کیا تھا ، باپ کے خون کا انتقام لینے کے لیے اس نے زمرد کے ساتھ مل کر  قلعہ التمونت کو تاراج کیا ۔

  شیخ علی وجودی :

   شیخ علی وجودی  بھی ایک طاقتور کردار ہے ، ناول کی پوری فضا پر حاوی ہے ، مصنوعی تقدس اور بزرگی کی آڑ میں چھپا وہ ماسٹر مائنڈ ویلن ہے جو باطنیوں کے تمام تخریبی امور کو بڑی چالاکی اور کمال عیاری سے نگرانی کرتاہے ، اغوا اور ورغلا کر لائے گئے نوجوانوں کے برین واش کرکے فدائی بناتا ہے اور ان کو عالم اسلام کے ممتاز علما وصلحا کے قتل پر مامور کرتا ہے ۔

      فکری اعتبار سے شیخ وجودی کا کردار سب سے اہم ہے ، مولانا عبد الحلیم شرر نے شیخ وجودی کی زبانی فرقۂ باطنیہ کے اہم عقائد کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا نے فرقۂ باطنیہ کے لٹریچر کا بہت گہرائی سے  مطالعہ کیا ہوا  تھا ۔

  ذیلی کرداروں میں رکن الدین خورشاہ ، طور معنی ، وادی ایمن اور موسی بڑے دلچسپ ہیں ۔

      ناول کا پلاٹ نہایت مربوط و منظم ہے اور منطقی انداز  سے ناول آگے بڑھتا ہے ، کہیں انقطاع اور جھول کا احساس نہیں ہوتا ، رومانس ، تجسس، تحیر  اور سسپینشن عروج پر ہیں ، لیکن مولانا نے حسین وزمرد مابین گفتگو کو جس شوخ انداز میں برتا ہے وہ مشرقی تہذیب کے خلاف ہے ۔

     ناول کے زبان وبیان پر لکھنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے ، مولانا لکھنوی ہیں ، لکھنوی زبان کی ٹھاٹ باٹ ، شان وشوکت اور آن بان ناول میں پوری قوت سے جلوہ گر ہیں ۔

       میرے پیش نظر "فردوس بریں " کا وہ برقی  نسخہ ہے ، جسے مجلس ادب عالیہ نے شائع کیا ہے ،  مجلس ادب عالیہ کو اس گراں مایہ کتاب کے برقیانے پر سو دل مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔