مامون الرشید
مامون الرشید ربیع الاول 170 ھ (786ء ) کوپیدا ہوا۔ اس کی ولادت کی رات بھی عجیب تھی۔ جس میں ایک خلیفہ ( ہادی ) نے وفات پائی۔ دوسرا ( ہارون الرشید ) تخت نشین ہوا اور تیسرا ( مامون ) عالمِ وجود میں آیا۔
المامون ابوجعفر عبدالله المأمون | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مامون کا طلائی دینار | |||||||
ساتویں خلیفہ خلافت عباسیہ | |||||||
27 ستمبر 813 – 7 اگست 833 | |||||||
پیشرو | امین الرشید | ||||||
جانشین | المعتصم باللہ | ||||||
رانی | ام عیسا بنت موسا الہادی Buran bint al-Hasan ibn Sahl اریب بنت جعفر بن یحیی مونیشہ بنت رومیہ | ||||||
نسل |
| ||||||
| |||||||
خاندان | خلافت عباسیہ | ||||||
والد | ہارون الرشید | ||||||
والدہ | مراجل | ||||||
پیدائش | 14 ستمبر 786 | ||||||
وفات | 7 اگست 833 (عمر 47) الرقہ، خلافت عباسیہ، ابھی محافظہ الرقہ، سوریہ | ||||||
مذہب | اسلام |
خلیفہ مہدی نے وصیت کی تھی کہ:
” | میرے بعد ہادی تخت نشین ہو اور اس کے بعد ہارون۔ | “ |
ہادی نے بد نیتی سے ہارون کو محروم کرنا چاہا مگر موت نے اس کی تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ مامون کی ماں ایک کنیز تھی جس کا نام مراجل تھا اور بارغیس ( ہرات کا ایک شہر ) میں پیدا ہوئی تھی۔ علی ابن عیسی گورنر خراسان نے اس کو ہارون کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ مراجل مامون کی پیدائش کے دو چار روز بعد انتقال کر گئی اور مامون کو مادر مہربان کے دامن شفقت میں پلنا نصیب نہ ہوا۔
تعلیم و تربیت
ترمیمپانچ برس کی عمر میں مامون کی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام سے شروع ہوئی۔ کسائی نحوی اور یزیدی قرآن پڑھانے کے لیے مقرر ہوئے۔ ہارون نے خلفا کے دستور کے مطابق مامون کو 182ھ (798 ) جعفر برمکی کے حوالے کیا جس سے مامون کی قابلیت اور لیاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ یزیدی کا بیٹا محمد بھی جو نہایت متبحر اور شاعر تھا مامون کی تربیت پر مامور تھا۔
مامون کو مورخوں نے حافظ القرآن لکھا ہے ( خلفا میں صرف حضرت ابوبکر، عثمان اور مامون الرشید حافظ القرآن گذرے ہیں بحوالہ سیوطی ص 24)۔
قرآن مجید ختم کرنے کے بعد مامون نے نحو و ادب پڑھنا شروع کیا اور وہ مہارت حاصل کی کہ جب کسائی نے ایک موقع پر امتحان لیا اور نحو کے متعدد مسئلے پوچھے تو اس نے اس برجستگی سے سوالوں کے جواب دیے کہ خود کسائی کو تعجب ہوا اور ہارون نے جوش طرب میں سینے سے لگا لیا ( دراری فی ذکر الزاری ص 29
اخلاق و عادات
ترمیممامون کی نسبت مورخین کے متفقہ الفاظ یہ ہیں۔ تمام خلفائے بنی العباس میں کوئی تخت نشین دانائی، عزم، بردباری، علم، رائے، تدبیر، ہیبت، شجاعت، عالی حوصلگی، فیاضی میں اسے سے افضل نہیں گذرا۔ مامون کا ادعا کچھ بے جا نہ تھا کہ معاویہ کو عمر بن العاص کا بل تھا، عبد الملک کو حجاج کا اور مجھ کو اپنا۔
ہارون الرشید اکثر کہا کرتا تھا کہ میں مامون میں منصور کا حزم، مہدی کی خدا پرستی، ہادی کی شان و شوکت پاتا ہوں۔ ان باتوں پر اگر اس کے عفو و انکسار، بے تکلفی، سادہ مزاجی کی صفتیں بڑھائی جائیں تو افضلیت کا دائرہ جس کو مورخین نے بنی العباس تک محدود کیا تھا، تمام سلاطین اسلام پر محیط ہو جاتا ہے۔
مامون کا اپنا قول تھا کہ مجھ کو عفو میں ایسا مزہ آتا ہے کہ اس پر ثواب ملنے کی توقع نہیں۔
عفو کا واقعہ
ترمیمعبد اللہ بن طاہر کا بیان ہے کہ ایک بار مامون کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے غلام کو آواز دی مگر صدائے برنخاست۔ پھر پکارا تو ایک ترکی غلام حاضر ہوا اور آتے ہی بڑبڑانے لگا کہ کیا غلام کھاتے پیتے نہیں؟ جب ذرا کسی کام کے لیے باہر گئے تو آپ یا غلام یا غلام چلانے لگتے ہیں۔ آخر “یا غلام“ کی کوئی حد بھی ہے؟ مامون نے سر جھکا لیا اور دیر تک سربگریبان رہا۔ میں نے سمجھا کہ بس اب غلام کی خیر نہیں۔ مامون میری طرف مخاطب ہوا اور کہا کہ “ نیک مزاجی میں یہ بڑی آفت ہے کہ نوکر اور غلام شریر اور بد خو ہو جاتے ہیں مگر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ان کے نیک خو کرنے کے لیے میں بد مزاج ہو جاؤں۔
مامون از مولانا شبلی نعمانی
تراجم كا شوق:
مامون رشید کو دوسری زبانوں کے تراجم کا از حد شوق تھا، انھوں نے بہت سی یونانی کتابوں کے عربی تراجم کروائے اور ان تراجم پر زر کثیر صرف کیا، ان تراجم میں اقلیدس کا ترجمہ خاص اہمیت کا حامل ہے، مگر ان تمام تراجم اور ان پر کافی تحقیقی کاموں اس وقت دریاء برد کر دیا گیا جب ہلاکو خان نے بغداد کوتباہ و تاراج کیا، مامون رشید نے 190ھ سے 218ھ تک حکومت کی
خلیفہ مامون رشید کے چند سبق آموزاقوالِ :
- اے مامون! طاعت باری تعالیٰ اتنی زیادہ کر جتنی کہ تجھے اس کے ساتھ احتیاج ہے۔
- انسان کو گناہ اتنے ہی کرنے چاہیے جس قدر ان کی عقوبت کی تاب لاسکے۔
- زیر دستوں پر اس قدر ظلم مت کرو کہ اگر خدائے روزگار انھیں تم سے زبردست بنادے تو ان کے انتقام کی تاب نہ لاس کو۔
- جب غصہ تم پر غالب آجائے تو خاموشی اختیار کرو۔
- ایسے فائدوں سے درگزر کرو جس سے دوسروں کا نقصان ہو۔
- اپنے کاموں کی بنیاد محبت و آشتی پر رکھو نہ کہ قہر و غضب پر۔
- دوست اس کو سمجھو جو خلوت میں تمھارے عیب تم پر ظاہر کرکے تمھیں تنبیہ کرے اور تمھارے پیچھے لوگوں میں تمھاری تعریف کرے اور مصیبت کے وقت تمھاری ہمراہی کرے۔
- دو جہاں کی نیکی کا سرمایہ نیک اعتقاد ہے۔
- ایسی راستی سے جو کسی کو فائدہ نہ پہنچائے اور لوگوں کا دل دُکھائے پرہیز کرو۔
- جو کوئی سچ بولنے میں مشہور و معروف ہو گیا اگر مصلحت کی وجہ سے کسی وقت جھوٹ بھی بول دے تو سچ سمجھا جاتا ہے، اس کے خلاف اگر مسلسل جھوٹ بولنے والا اگر کسی وقت سچ بھی بولے تو جھوٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔
- یقین رکھو! جو درہم ناجائز طریقہ سے حاصل کیا جاتا ہے وہ ہزار دینار کے لیے حجاب بن جاتا ہے، جو کوئی اس پر یقین نہ کرے وہ تو شیطان ہی ہے۔
- خرچ آمدنی کے حساب کرو تاکہ محتاجی سے بچ جاؤ۔
- تونگری قناعت میں ہے اور درویشی زیادہ نہ طلب کرنے میں ہے۔
- اگر کسی نے توکل کے برخلاف زیادہ کی طلب کی اگر اس کو بہت سا مال بھی دیدیا جائے تب بھی اس کی طلب ختم نہیں ہو سکتی۔
- مال حاصل کرنا آسان ہو سکتا ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانا اور حفاظت کرنا مشکل۔
- عاقبت اندیشی کو طلبِ مال پر مقدم رکھو۔
- اگر تمھارے اخلاق اچھے ہیں اور تم خوش کلام ہو تو سبھی تم سے محبت کریں گے۔
- جو شخص کسی کی عیب جوئی کرے وہ کسی کا دوست نہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیممزید پڑھیے
ترمیم- C. E. Bosworth، مدیر (1987)۔ The History of al-Ṭabarī، Volume XXXII: The Reunification of the ʿAbbāsid Caliphate. The Caliphate of al-Ma'mun, A.D. 812–833/A.H. 198–213۔ Albany, New York: State University of New York Press۔ ISBN 0-88706-058-7۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2016
- Michael Fishbein، مدیر (1992)۔ The History of al-Ṭabarī، Volume XXXI: The War between Brothers. The Caliphate of Muhammad al-Amin, A.D. 809–813/A.H. 193–198۔ Albany, New York: State University of New York Press۔ ISBN 0-7914-1085-4۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2016
- John Bagot Glubb The Empire of the Arabs, Hodder and Stoughton, London, 1963.
- Peter Tompkins, "Secrets of the Great Pyramid"، chapter 2, Harper and Row, 1971.
- E. de la Vaissière, Samarcande et Samarra. Elites d'Asie centrale dans l'empire Abbasside، Peeters, 2007 [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ peeters-leuven.be (Error: unknown archive URL)
- Michael Cooperson، Al-Ma’mun, Oneworld Publications, Oxford, 2005
- Dimitri Gutas، Greek Thought, Arabic culture: the Graeco-Arabic translation movement in Baghdad and early Abbasid society Routledge, London, 1998
- Hugh N. Kennedy، The Early Abbasid Caliphate, a political History, Croom Helm, London, 1981
- John Nawas، A Reexamination of three current explanations for Al-Ma’mun’s introduction of the Mihna, International Journal of Middle Eastern Studies 26, (1994) pp. 615–629
- John Nawas، John The عقیدہ خلق قرآن of 218 A.H./833 A.D. Revisited: An Empirical Study, Journal of the American Oriental Society 116.4 (1996) pp. 698–708
- M. Rekaya (1991)۔ "al-Maʾmūn"۔ The Encyclopedia of اسلام، New Edition, Volume VI: Mahk–Mid۔ Leiden and New York: BRILL۔ صفحہ: 331–339۔ ISBN 90-04-08112-7۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2016
بیرونی روابط
ترمیمویکی ماخذ میں مامون الرشید سے متعلق وسیط موجود ہے۔ |
- (انگریزی میں) Al-Mamum: Building an Environment for Innovationآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dinarstandard.com (Error: unknown archive URL)
- Len Berggren (2007)۔ "Maʾmūn: Abū al‐ʿAbbās ʿAbdallāh ibn Hārūn al‐Rashīd"۔ $1 میں Thomas Hockey، وغیرہ۔ The Biographical Encyclopedia of Astronomers۔ New York: Springer۔ صفحہ: 733۔ ISBN 978-0-387-31022-0۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2018 (PDF version)
مامون الرشید پیدائش: 786ء وفات: 833ء
| ||
مناصب سنت | ||
---|---|---|
ماقبل | خلیفۃ الاسلام 813ء – 833ء |
مابعد |