تعارف [1]

فقیر محمد ابراہیم رحمتہ علیہ
پیدائش(1952ء )
وفات(2016ء)
نسلبلتستانی
عہدجدید دور
شعبۂ زندگیمرشد اعظم
پیشہفوجی
مذہباسلام
مکتب فکرصوفیہ نوربخشیہ
شعبۂ عملعقیدہ، فقہ، تصوف


امام انقلاب مرشداعظم فخر تصوف ثانی شاہ سید[2] وثانی شاہ ہمدان[3] منبع رشدوہدایت  ثانی شاہ سید و شاہ ہمدان و غوث اعظم الحاج فقیر محمد ابراہیمؒ 1952 کو خپلو[4] کھانسر کے ایک ذی وقار مذہبی خاندا ن  میں پید ا ہوئے۔

آپ نے 6 سال عمر سے ہی راہ سلوک میں قدم رکھا ا ور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے

آپ نے1967   کو بسلسلہ روزگار پاک فوج میں شمولیت اختیار کیا۔ فوجی ملازمت کے دورا ن بھی فارغ ا وقات میں اکثر عبادات ا ور ذکر و فکر میں بسر کر تے تھے۔

والدیں:

آپ کے والد محترم کا نام محمد تھا جو گاؤں کے نمبردا ر تھے معاشرے میں عوا م کی قیادت ا ور منصفی کیا کرتے تھے۔ موروثی اعتبار سے مذہب کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ بوا فقیر مرحوم کی والدہ محترمہ نہایت ہی نیک سیرت صالحہ عار فہ قسم کی خاتون تھیں ا ن کی سیر ت و کردا ر سے آپ بہت متاثر تھے۔ 

نمایاں خصوصیات:

آپ ؒ ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اخلاقیا ت و انسانیات میں یکتائے روزگار، عشق و محبت اہل بیت ؑسے سرشار، امن و آشتی کے علمبردا ر، دوا م ِوضو، دوا مِؔ توبہ ا ور دوا م ِذکر کے پاسدا ر، غریبو ں ا ور مفلسوں کے دلدا ر، تحفظ قرآن و سنت کا سپہ سالاا ر، فکرِ کرخیؒ و بغدادی ؒو سمنانیؒ کے لکچرا ر، چلہ خانوں ا ور خلوت گاہوں کا خدمت گار، مساجد و خانقاہوں کی تعمیر و توسیع میں مرکزی کردا ر، شریعت و ہدایت سے باغی و سرکشو ں کے لیے مصطفوی ﷺو مرتضویؑ نسخہ دا ر، حق پرستی و حق گوئی کے ذریعے طاغوت و استحصا ل کے لیے للکار ،میدا ن ریاضت کے اسرا ر و رموزِؔ باطنی کے شہسوا ر، اتحاد بین المسلمین کے نشاندا ر، ماضی شاندا ر، حال چمکدا ر ا ور مستقبل محمد و آل محمدﷺؔ کی شفاعت کے حقدا ر،حلاوت ِخلوت و جلوت میں مست قلندر، دس ہزا ر فٹ کی بلندی پر تعمیر شدہ خانقاہ  معلی کا مؤسسِ کبیر، جہاد اکبر و اصغر کی سعادت میں عالمگیر، روحانی و جسمانی امراض کے طبیب خبیر ہونے کے ساتھ ساتھ عجز و انکسار، مہمان نوا زی، شیرین کلامی ،حوصلہ و بے باکی، خوش اخلاق، غریب پروری، اصول پسندی، طلبہ خیر خواہی، دور اندیشی، مبلغ و مقر ر، مصلح وثالث، خطیب و حسیب،  ذہین و فطین، سخاوت وشجاعت جیسی بے شمار لازوال صفات کا مالک،

دینی خدمات:

سکردو[5] میں مرکزی انجمن قائم کی گئی ا ور پوری ملت کو مالی استحکام کے لیے چندہ مہم کا آغاز کیا گیا ۔

آپ اپنی قائد انہ صلاحیتوں سے نوربخشی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کو شش جاری کیں۔

مسجد امیر کبیر خپلو ہنجور صوفی اباد

نوجوا ن نسل میں مذہبی بیدا ری کا شعور پیدا کیا ا ور منظم طریقے سے مسلک حقہ کی تحفظ و فلاح و بہبود کے سلسلے میں ہدایا ت جاری کرتے رہے نوجوانوں میں علم وہنر کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت ا ور اعتکاف نشینی کی پُر نور ا ور روح پرور تعلیم عام کر دی ۔

مذہبی نشر و اشاعت کے لیے پریس کا قیام عمل میں لایا۔ ۔

مسجد امیر کبیرؒ[3] کے نام سے ایک عظیم الشان عبادت خانے کی تعمیر کا کام خوش اسلوبی سے انجام پایا۔

2016میں آپ نے خانقاہ معلیٰ گلگت کے لیے ایک عالی شان ا ور بیش قیمت منبر بنوا کر  تحفہ کیا جو طویل عرصے تک آپ کی یاد کو تازہ رکھیں گے۔ ا

مشن:

فقیرمحمد ابراہیم ؒ ایک ایسی ہی شخصیت تھی جس نے اس مادی کشمکش ا ور نفسا نفسی کے دور میں جوانوں کو شب بیدا ری، دوا م ِ وضو، دوا م ِتوبہ ا ور دوا م ِذکر کا درس د ے کر ا ن کی نگاہوں کو نیچی، ا ن کے کر دا ر کو بلند ا ور ا ن کی نفوس کو پاکیزہ کرتے ہوئے اعتکاف کے ذریعے معاشرہ سازی کے لیے نہایت بنیادی تربیت فر اہم کیے۔


بوا فقیر محمد ابراہیمؒ عالم اسلام کے محسن و مبلغ، اتحاد بین المسلمین کے داعی،امن وبھائی چارے کا امین،اہل ایمان میں روادا ریہ کے روحانی پیشو ا تھے ۔

نوجوانوں میں توجہ طہارت ا ور تقویٰ و پرہیزگاری کی تبلیغ ا ور اپنے مخصوص اندا ز میں واعظ و نصیحت جاری رکھتے عسکری زندگی میں ا یسے نوجوا ن جو بے راہ روی کے شکار تھے ا ن کو توبہ و طہارت کی تلقین کرتے ا ور و ہ گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے آپ کی مریدی میں شامل ہوتے تھے۔ ہزا روں بے نماز لوگ نمازوں کا پابند ہوئے آپ کے دیے ہوئے ورد و  وظائف کے ذریعے روحانی مدا رج طے کرنے لگے۔

بو ا فقیر ؒ چلہ کشی، ا ربعین نشینی کے عادی تھے خود ریا ضت کرتے تھے اور لوگوں کو تزکیہ نفس کی تعلیم دیتے تھے۔

آپ کا مشن اسلا م ا ور اسلا م[6] کی خدمت ہی لوگوں کی ہدایت ا ور روحانی مدا رج طے کرنے کی جو تحریک ہے وہ ہمیشہ جاری وساری

          گے ا ور تصفیہ قلب کے رموز کھلتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں آپ کے شاگردوں میں سینکڑوں کامل ا ور قابل لوگ موجود ہیں ۔

اعتکاف:[7]

 بوا فقیرا عتکاف کے روح پر ور ا ور نورانی محفلوں میں کبھی بنفس نفیس شا مل ہوتے ا ور سالکین کی تعلیم و تربیت کی بندوبست فرماتے ا ور

معتکفین کی نگرانی فرماتے دورا ن اعتکاف مختلف النوا ع اعتکاف کی تربیت دیتے تھے۔

·      

وفات:

20 اگست 2016کی شام دیوسائی[8] سے واپسی کے سفر میں سد پارہ گا ؤں کے قریب گاڑی کے ایک ا لمناک حادثے میں الحاج فقیر محمد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ا ور ا ن کے 7 رفقاا ور مریدین رحلت فرما گئے۔ اس حادثاتی مو ت پر نہ صرف بوا فقیر کے معتقدین بلکہ پورا بلتستان[9] غم میں ڈوب گیا۔[10]

حوالہ جات ترمیم