فوج میں خواتین (انگریزی: Women in the military) کسی نہ کسی روپ میں تاریخ کے سبھی دور میں اور دنیا کے بیش تر ممالک میں خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔

ریاستہائے متحدہ امریکا

ترمیم

ریاستہائے متحدہ امریکا حفوق نسواں اور عالمی مساوات کا علم بردار رہا ہے۔ اس وجہ سے فوج میں عورتوں کو نمایاں مقام دیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اس کے ساتھ ساتھ امریکی فوج میں خواتین اہل کاروں پر جنسی حملوں میں جدید دور میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ برسوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق سنہ 2018ء کے دوران 20500 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ سنہ 2016 میں ایسے جنسی حملوں کی تعداد 14900 تھی۔ ان واقعات میں سے ایک تہائی کے دوران الکوہل کا استمعال کیا تھا اور ان حملوں کا زیادہ تر شکار 17 سے 24 سال کی نئی بھرتی ہونے والی خواتین اہل کار تھیں۔[1]

افغانستان

ترمیم

افغانستان میں امریکا کی جانب سے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کے بعد امریکا اور اتحادیوں نے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے افغان فوجیوں کو نہ صرف ان کے ملک بلکہ اپنے ملکوں میں بھی تربیت دینا شروع کی ہے۔ افغان نیشنل آرمی کی خواتین اہل کار بھی ملک سے باہر دفاعی تربیت حاصل کرتی ہیں۔ بھارت کے شہر چینائی میں افغان نیشنل آرمی کی 20 کیڈٹس خواتین آفیسر ٹریننگ اکیڈمی میں تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ تسیرا سال ہے کہ افغان نیشنل آرمی کی خواتین اس اکیڈمی کا حصہ بن رہی ہیں۔ یہ خواتین کیڈٹس آفیسر، ٹریننگ اکیڈمی میں لی گئی تربیت افغانستان میں اپنے ساتھیوں کو بطور انسٹرکٹر منتقل کرتی ہیں۔[2]

بھارت

ترمیم

جنوری 2020ء میں بھارت کی عدالت عظمیٰ نے حکومت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ وہ خواتین پر جنگی کردار ادا کرنے سے متعلق عائد سرکاری پابندی پر از سر نو غور کرے اور مردوں کے شانہ بشانہ انھیں بھی اس قسم کا رول دے۔ عدالت نے کہا تھا کہ 'ان کو مردوں کے معیار پر ہی پرکھا جائے۔ اور خواتین افسران کو علاحدہ درجہ نہ دیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایسا کرنے کے لیے (دقیانوسی) ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

بھارتی فوج کے بریہ، بحریہ، فضائیہ اور دیگر شاخوں میں پہلے ہی سے عورتوں کی نمائندگی موجود ہے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم