قاضی عبدالقادر بیدل
قاضی عبد القادر بیدل سندھی اور فارسی کے شاعر اور عالم دین تھے۔
قاضی عبدالقادر بیدل | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1837ء شکارپور |
وفات | 7 فروری 1934ء (96–97 سال) شکارپور |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، فقیہ ، شاعر |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمقاضی عبد القادر بیدل بن محمد پناہ شکار پور میں 1837ء کو پیدا ہوئے ۔
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ نے شکار پور کے مشہور عالم خلیفہ عبد اللہ سے عربی و فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ اسکول سے سندھی فائنل کا امتحان بھی پاس کیا۔
درس و تدریس
ترمیمٹریننگ کالج حیدرآباد سے تربیت حاصل کر کے مختلف اسکولوں میں تدریسی فرائض انجام دیے بالآخر ہیڈماسٹر بنے اور اسی عہدے پر ریٹائر ڈ ہوئے۔
شاعری
ترمیمبیدل کے وقت میں خان بہادر رسول بخش راہی بروہی اور اس کا بھائی غوث بخش خاکی میر محمد اسلم علوی حاجی امام بخش خادم علامہ میر علی نواز علوی میر صفی الدین فداعلوی مفتی خوش محمد خاطی قاضی محمد باقرراقم شمس الدین قاضی میاں محمد صدیق میاں یار محمد قانع وغیرہ شعر و شاعری کو ترقی کی راہ پر لے جا رہے تھے لیکن ان تمام میں بحیثیت غزل گوئی میں بیدل کا مقام بلند ہے ۔ درس و تدریس ، تصنیف و تالیف کے ساتھ شروع سے شاعری سے وابستگی رہی۔ فارسی شاعری کے گہرے مطالعہ اور حیدرآباد و شکار پور کے ادبی ماحول نے بیدل کے جو ہر کو نکھار اور اجاگر کیا۔ بیدل فقط سندھی کے قادر الکلام شاعر تھے بلکہ فارسی شاعری میں بھی اعلیٰ مقام آپ کا فارسی اور سندھی کلام اس دور کی مشہور اخبار ’’مفرح القلوب ‘‘ اور ’’سند ھ سدھار ‘‘ میں شائع ہوتا تھا جب کہ مفرح القلوب سندھ کے علاوہ ہندوستان افغانستان اور ایران کے مختلف شہروں میں شوق سے پڑھا جاتا تھا اس لیے ہر مقام پر آپ کو شہرت حاصل تھی بلکہ افغانستان اور ایران کے فارسی شعرا آپ کے مداح تھے ۔ افسوس کہ ااپ کا اکثر کلام دیوان مع تصانیف اپنوں کی غفلت کی وجہ سے ضائع ہو گیا اور ان کے تفصیلی حالات مفقود ہیں ۔
وصال
ترمیممولانا قاضی عبد القادر بیدل جس کو جناب میر محمد اسلم علوی شکار پوری جیسے معاصر شاعر نے ’’خاتم الشعر اء ‘‘ کہا ہے ۔ آپ نے7 ، فروری 1934ء؍1350ھ کو انتقال کیا۔[1]
مولانا بیدل شاعر کے علاوہ عالم تھے یا تو خود قاضی (مفتی ) تھے یا پھر قاضی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہی لیکن حالات مفقود ہونے کی صورت میں تفصیلی حالات زندگی دستیاب نہ ہو سکے ۔ [2]