قاضی محمد صادق
قاضی محمد صادق المعروف خواجہ عالم گلہار شریف کوٹلی والے یا حضرت صاحب گلہار شریف والے کہلاتے ہیں۔
حسب و نسب
ترمیمخواجہ عالم المعروف جناب جی قاضی صادق صاحب کا آبائی گاؤں چیچیاں شریف موضع لدھڑ(میرپور) ضلع میرپورہے۔ خواجہ عالم قریشی الاصل اور صدیقی النسب ہیں آپ کا شجرہ نسب 39واسطوں سے امیر المومنین ابو بکر صدیق تک پہنچتا ہے۔ آپ خلیفہ اول صدیق اکبرکے بڑے فرزند عبد الرحمن کی اولاد میں سے ہیں اسی خاندان کے چشم و چراغ قاضی فتح اللہ نے اپنے شیخ خواجہ محمد حسن روہتاسی کے فرمان اور حکم کے تحت میرپور کو اپنا مسکن بنایا آپ کی شادی مبارک سلطان فتح خان کی صاحبزادی سے ہوئی اسی رشتے سے صدیقی خاندان کی اولاد کا سلسلہ شروع ہوا قاضی فتح اللہ شطاری کی آٹھویں پشت خواجہ عالم قاضی صادق ہیں خواجہ عالم کے والد قبلہ عالم قاضی محمدسلطان عالم سرزمین کشمیر کے کثیر الفیضان نقشبندی مجددی شیخ طریقت تھے آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہو کر ہزاروں لوگ دین و دنیا میں سرخرو ہوئے
القابات
ترمیمخواجہِ عالم ، مساجد والے حضرت صاحب ، قبلہ حضرت صاحب, بڑے حضرت صاحب خاندانی لقب : قاضی صاحب
ولادت
ترمیمخواجہ عالم محمدصادق نے 25دسمبر 1921ء بروز اتوار (24ربیع الثانی 1340ھ کو قبلہ عالم قاضی سلطان عالم کے گھر آنکھ کھولی۔ خواجہ عالم خواجہ محمدصادق 13سال کے تھے تو آپ کے شیخ طریقت والد محترم قبلہ عالم خواجہ محمد سلطان عالم دنیا سے پردہ فرما گئے آپ کے والد ماجد کو عوام علاقہ مسیتی والے قاضی صاحب کہتے تھے ۔
تعلیم و تربیت
ترمیمقاضی محمد صادق صاحب کے خاندان میں تعلیم و تربیت کا ایک مثبت عملی انداز چلا آ رہا تھا۔ آپ کا گھرانہ دینی و روحانی تعلیم و تربیت کا گہوارہ تھا آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اسی ماحول ہوئی جس کی بدولت دین سے وابستگی، علم سے لگاؤ اور روحانیت کا رجحان آپ کی شخصیت میں راسخ ہو گئے آپ کی تربیت سراپا تقویٰ و پرہیزگاری میں ہوئی اپنے والدقبلہ عالم سے تعلیم کا آغازفرمایا پھر اسکول داخل ہو گئے ابھی چھٹی جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ والد گرامی کا سایہ 9مئی 1934ءکو سر سے اُٹھ گیا اس حادثہ کی وجہ سے اسکول کی تعلیم بھی منقطع ہو گئی اس کے بعد آپ نے دینی علوم کے حصول کی طرف توجہ فرمائی۔ فارسی کی تعلیم مولانا حکیم محمد میاں اور دیگر دینی تعلیم استاذ الاساتذہ مولانا محمدعبدللہ لدڑوی سے حاصل کی جو ہندوستان اور حرمین شریفین کے مشاہیر علما و مشائخ سے فیض یافتہ تھے طریقت میں آپ اپنے والد ماجد سے بیعت تھے ان کے وصال کے بعد سلوک نقشبندیہ مجددیہ قبلہ عالم کے دو ماذون ومجاز خلفائے کرام بابا فوجدار خان اور مولانا ستار محمد سے کامل طور پر فرمایا اور اپنے والد ماجد اور مرشد گرامی قبلہ عالم کی مسند ارشاد و تلقین کے وارث بنے خواجہ عالم نے اپنی حیات مستعار کو تعمیر انسانیت کے مقدس مشن کے لیے وقف کر رکھا تھا یعنی انبیا کرام کی بعثت کا جو مقصد تھا اس کی تکمیل میں دن رات کوشاں رہے خواجہ عالم دنیائے تصوف و طریقت کے ائمہ کرام میں سے ایک عظیم فرد تھے آپ کی سیرت و کردار میں اسوہ نبوی اور اکابر صوفیہ کرام کی مقدس سیرتوں کی جھلک نظر آتی اخلا ق عالیہ اتنے پاکیزہ اور عظیم تھے جس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے انکا حسن نمایاں ہو کر قلب و نظر کو نئی تازگی بخشتا ہے نہ کہیں جھول نظر آتی ہے نہ ڈھیل بلکہ انکا ہر پہلو نت نئے حسن کا آئینہ دکھائی دیتا ہے ۔
تعمیر مساجد
ترمیمضلع کوٹلی دنیا بھر میں "مدینۃالمساجد" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قبلہ عالم خود فرماتے تھے کہ رب تعالیٰ نے مجھے دو شوق عطا فرما رکھے تھے گھڑ سواری اور تعمیر مساجد کا شوق۔ آپ نے دونوں شوق پورے کیے نظام سلطانیہ کے تحت تعمیر مساجد کا باقاعدہ آغاز 1960ء میں فرمایا اس وقت آپ کی عمر مبارک 39سال تھی 31دسمبر 2008ء کو جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو تقریباََتین سو مساجد کی تعمیر کا شرف حاصل ہو چکا تھا اس طرح ایک سال میں مساجد کی اوسط تعمیر تقریباََسوا چھ بنتی ہے آپ کے پاس لشکر سلیمانی تھا اور نہ اس جیسے وسائل اس معاملہ کو کرامت کے سوا اور کسی لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا یہ تمام مساجد ایک سے بڑھ کر ایک عالیشان ہیں ۔ ان تمام مساجد میں نماز پنجگانہ با جماعت کا انتظام موجود ہے اور تمام آباد ہیں علاوہ بریں بہت سی مساجد میں حفظ قرآن مجید کا انتظام ہے اور کئی ایک میں درس نظامی کی تدریس کا بندوبست بھی ہے اس نظام کے قیام اور تسلسل میں آپ کا یہ جذبہ کار فرما رہاکہ مخلوق خدا کا تعلق معبود حقیقی کے ساتھ استوار کیا جائے اس سلسلہ میں رب تعالیٰ نے آپ کو خاطر خواہ کامیابی عطا فرمائی ایسے دیہات جن میں تعلیم کا تناسب صفر تھا رب تعالیٰ کے فضل اور نظام سلطانیہ کی اشاعتی خدمت کے باعث چند معمر افراد سے قطع نظر کریں تو اب ا سی فیصد ہے اور جہاں کوئی جنازہ پڑھانے والا نہیں ملتا تھا اب وہاں ہر گھر میں دو، دو، تین، تین حفاظ کرام ہیں بہت سے سفید پوش گھرانوں کا بھرم آپ کے دست سخا سے قائم تھا۔ بن مانگے اور بے منت ان کی ضروریات کی کفالت آپ نے اپنے سرے رکھی تھیں ۔
وفات
ترمیمقاضی محمد صادق 87سال اور چھ دن کے بعد 31دسمبر 2008ء 3 محرم الحرام 1430ھ کو آخری سانس لیا یکم جنوری 2009ء کو بعد نماز ظہر نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد خواجہ قاضی فتح اللہ صدیقی شطاری کے دائیں پہلو دفنایا گیاعرس مبارک ہر سال 31دسمبر کو خانقاہ فتحیہ جامعتہ الفردوس درس شریف گلہار کوٹلی میں مذہبی طریقے سے عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
اولاد
ترمیم1938ء میں آپ کا عقد ہوا۔ اللہ نے ایک صاحبزادے جناب حافظ عبدالواحد المعروف حاجی پیر اور دو صاحبزادیوں سے نوازا۔ آپ نے دوسرا عقد 1956ء میں کیا۔ دوسری شادی سے صاحبزادہ جناب حافظ محمد زاہد سلطانی واحد اولاد ہیں۔
مزارات منتقل
ترمیمآپ کے والد قبلہ سلطان عالم کی قبر اطہر چیچیاں شریف میں تھی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ آپ کے جسد اطہر کو 1967ء میں دربار کالا دیو جہلم منتقل کیا گیا۔ قبلہ سلطان عالم کا سالانہ عرس 9 مئی کو دربارعالیہ شریف کالادیو جہلم میں ہوتا ہے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ سلطانیہ،ڈاکٹر معین نظامی،خانقاہ فتحیہ گلہار کوٹلی